تحریر: علینہ ملک
انسانی حیات ارتقاء کی مرہون منت ہے، انسان پیدائش سے لیکر آج تک ارتقاء کی کئی منزلیں طے کر چکا ہے ۔اگر زندگی میں تبدیلی یا ارتقاء نہ ہوتا تو یہ جمود ہماری زندگی کو بے رنگ ،بور اور بے مزہ کر دیتا۔ لہذا زندگی کی افزائش کے لئے تبدیلی اور ترقی کا عمل بہت ضرووری تھا، ہے اور رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ انسان نے غاروں اور پتھر کے دورسے نکل کر آج جدید مشینی اور برقی دور میں قدم رکھ دیا ہے۔وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے اور اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے یا پھر انسان ایسے مشینی دور میں داخل ہو گیا ہے جہاں وہ جلد از جلد ترقی کی کئی منزلیں طے کر لینا چاہتا ہے۔
جہاں وقت کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے ،وہیں انسان کے مزاج ،سوچ ،خیالات ،رویوں اور ترجیحات میں بھی بہت تبدیلی رونما ہوئی ہے ،بلا شبہ تبدیلی انسانی حیات کا جزولانیفک ہے ،مگر تبدیلی بھی دو قسم کی ہوتی ہے جو تبدیلی یا ترقی مثبت ہو اس کے اثرات بھی مثبت ثابت ہوتے ہیں ،اور کچھ تبدیلیاں منفی ہوتی ہیں جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔آج کے اس جدید اور ترقی یافتہ دور نے انسان کے مزاج اس کی سوچ اور معیار زندگی کو بھی مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے ۔آج کا انسان مادہ پرستی اور حوس پرستی کا شکار ہوچکا ہے ،ایک وقت تھا جب رہن سہن سادہ اور دل ہر قسم کی بڑائی اور دکھاوے سے پاک تھے ،تو زندگیاں بھی آسان تھیں۔
جوں جوں انسان کے اندر آگے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خواہش بڑھ رہی ہے تو حوس اور دکھاوا بھی بڑھتا جارہا ہے ۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کسی کو اس کے اخلاق وکردار ،تعلیم وتہذیب، ادب وآداب اور قابلیت کی بنیادوں پر جانچا جاتا تھا ،اور رشتے ناطے پیار ومحبت کے دم سے قائم رہتے تھے ۔بنا کسی دکھاوے اور لالچ کے تعلقات بنائے جاتے تھے نہ ہی کسی کا عہدہ یا کسی کی امارت دیکھ کر تعلق کا سوچا جاتا ۔وہ شخص جو اخلاق و کردار اور قابلیت میں بلند ہوتا وہی لوگوں کی نظر میں قابل عزت و تکریم کا باعث ہوتا ۔مگر آج انسانوں کو جانچنے کا پیمانہ یکسر بدل چکا ہے ۔اب کسی شخص کو اس کی تعلیم ۔قابلیت اور شرافت کی بدولت نہیں پہچاناجاتا ہے بلکہ اس کا مکان ،عہدہ ،بینک بیلنس ،گاڑی، اس کا لباس ،موبائل فون ،برانڈڈچیزوں گھڑی اور پر فیوم کی مہک سے جانچا جاتا ہے ۔جبکہ ہمارا دین تو ہم سے یہ کہتا ہے کہ ،تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کا اخلاق بہترین ہے۔
مولانا روم رحہ نے کیا خوب فرمایا ہے ، میں نے کتنے ایسے قیمتی انسان دیکھے ہیں جن کے پاس لباس نہیں تھا ، اور کتنے ہی قیمتی لباس دیکھے ہیں جن کے اندر انسان نہیں تھے ۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی انسان کا قیمتی لباس اس کے اخلاق اور کردار کا پیمانہ نہیں ہوسکتا ہے ۔مگر نجانے کیوں آج ہماری سوچ اس طرح کی ہو گئی ہے کہ ایسا شخص جس کے پاس بہت سا پیسہ ہو اور بڑا عہدہ ہو ،چاہے وہ ناجائز اور حرام کا ہی کیوں نہ ہو مگر ہم اس سے تعلق بنانا باعث فخر سمجھتے ہیں اور ایک اچھے باعمل اور باکردار انسان کو اس کی کم حیثیت کی وجہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ،اور یہی وجہ ہے کہ آج معاشرے میں توازن کم ہوتا جارہا ہے اور بے چینی ،انتشار اور ناانصافی بڑھ رہی ہے ۔کیونکہ ایک قابل ،ذہین اور پڑھا لکھا انسان اگر غریب ہے تو وہ اپنی ڈگری اور قابلیت یا شرافت کی بدولت کبھی بھی کسی اچھے عہدے کا اہل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے پاس نہ کوئی بڑی سفارش ہے ،نہ دکھانے کے لئے کوئی مال ،پیسہ ،وہ اگر ایک معمولی نوکری پیشہ شخص کی اولاد ہے اور جو گورنمنٹ بسوں میں سفر کرتا ہے ،ایک اوسط معمولی علاقے میں ایک چھوٹے سے گھر کا رہائشی ہے تو اس کی ساری زندگی خود کو کسی بڑے عہدے کا اہل بنانے کی کوشش میں ہی گزر جائے گی۔
مگر اس کی یہ محنت ،قابلیت ،ذہانت اور شرافت کبھی کسی کام نہیں آئے گی ۔کیونکہ بہت سے نااہل لوگ اپنی امارت کے بل بوتے پر ترقی پہ ترقی کرتے جاہیں گے اور وہ جہاں سے چلا تھا وہی رہ جائے گا ۔اور فی زمانہ یہی صورتحال ہے کہ آج امیر ،امیر سے امیر تر ہورہا ہے اور غریب ،غریب تر۔ٍہر شخص پیسے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور جس کے پاس پیسہ ہے وہ اس کی نمود ونمائش میں مصروف ہے ۔یہ د کھاوا ہی ہے جس کی وجہ سے آج بہت سی لڑکیاں ،باکردار ،بااخلاق ،پڑھی لکھی اور سلیقہ مند ہونے کے باوجود اچھے رشتوں سے محروم اپنے ماں ،باپ کی دہلیز پہ ہی بیٹھی رہ جاتی ہیں ۔کیونکہ ان کے والدین کے پاس اپنی بیٹیوں کو دینے اور دنیا کو دکھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا ،کیونکہ جو تعلیم ،جو دین اور جو شرافت کی دولت انھیں والدین سے ملی ہے وہ دنیا کی چمک دھمک کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی۔
نجانے کیوں ہم سب دنیا کی چیزوں میں اس قدر دل لگا بیٹھے ہیں کہ یہ بھی بھول گئے کہ ہماری یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے سب نے ایک دن لوٹ کے جانا ہے یہ دنیا دولت ،یہ روپیہ پیسہ ،گاڑی ،بنگلہ سب یہی رہ جانا ہے ،اور وہاں تو بس ہمارے اعمال ہی جانے ہیں ،تو پھر کیوں ہم اس کی فکر ہر چیز سے پہلے نہیں کرتے ۔کیوں دکھاوے اور نمودو نمائش میں پڑے ہوئے ہیں ،کیوں ہمارا معیار زندگی بدل رہا ہے کہ جب ہم سب ایک آدم عہ کی اولاد ہیں اور سب ایک ہی مٹی سے بنے ہیں ،تو پھر کیسی بڑائی اور کیسا دکھاوا، کیوں اونچ ،نیچ ،بڑا چھوٹا،امیر ی غریبی،حکومت رعایا ۔جب سب نے ایک جیسی قبر میں جانا ہے ۔شیخ سعدی رحہ نے کیا خوب بات کہی ہے کہ ، مجھے اللہ کے انصاف پر ےقین آگیا کہ جب میں نے یہ دیکھا کہ محل میں رہنے والے اور ٹاٹ پر سونے والوں کا کفن ایک جیسا تھا۔ پس اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں باطن کی وہ آنکھ عطا کر دے کہ جس سے ہم لوگوں کے ظاہر کے بجائے ان کے باطن کے حسن کو پہچان سکیں ،اور دنیا کی لذتوںاور دنیا کی چیزوں کی حوس اور طلب سے خود کو بچا سکیں ۔کیونکہ اسی میں ہماری کامیابی اور فلاح ہے۔
بقول شاعر ،
ٹک حرص و حوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا ، قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا۔
کیا بدھیا ،بھینسا ،بیل ،شتر کیا کوئی پلا سر بھارا، کیا گہوں ،چانول موٹ مٹر کیا آگ دھواں کیا انگارا،
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا ، جب لاد چلے گا بنجارہ ۔
تحریر: علینہ ملک
Writer Club (Group)
Email: urdu.article@gmail.com
Mobile No: 03136286827