تحریر : اقبال زرقاش
عظیم انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے مادرگیتی ان کو روز روز جنم نہیں دیتی ایسے انسانوں کے لیے تاریخ کو مدتوں منتظر رہنا پڑتا ہے ۔ زندگی سالہا سال دیر و حرم کا طواف کرتی ہے تب کہیں جا کر کوئی ایسا انسان وجود میں آتا ہے جو صرف عظمت ہی کے معیار پر پورا نہیں اُترتا بلکہ اسکو دیکھ کر خود عظمت کا معیار قائم کیا جاتا ہے۔
کون جانتا تھا کہ 25دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہونے والا بچہ دراصل مشرق کے اقبال کا ستارہ اور ایک اسلامی سلطنت کا بانی ہے۔ محمد علی جناح کے والد سوداگر تھے جسم کے کمزور تھے اور گجراتی زبان مین دُبلے پتلے انسان کو “جینا” کہتے ہیں۔ یہی بعد میں جناح بن گیا۔ محمد علی جناح ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1893 میں انگلستاں چلے گئے وہاں سے قانون کا امتحان پاس کیا ۔ واپس آئے بمبئی میں وکالت شروع کی۔ آغاز میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن قائد اعظم کے استقلالِ مسلسل نے ان نا کامیوں کو کامیابیوں سے بدل دیا اور آپ کاشمار عظیم قانون دانوں میں ہونے لگا۔ قائد اعظم شروع شروع میں کانگرس میں تھے لیکن آپ نے محسوس کیا کہ کانگرس کے پیش نظر صرف ہندووں مفاد ہے چنانچہ قائد اعظم نے تلخ حقیقت کے اس احساس کے بعد کانگریس سے علٰیحدگی اختیار کی۔
آپ مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور مسلم لیگ کو منظم کیا۔ مسلمانوں کو ایک مرکز پر مرتکز کیا اُن کو فکر کی دعوت دی پاکستان کا مطالبہ کیا اور اعلان کیا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیںآباد ہیں ہندستان کو تقسیم ہونا چاہیے اس آواز کی مخالفت ہوئی ہندووں نے اُسے ناقابل عمل قرار دیا۔ انگریز نے مضحکہ اُڑایا اپنوں نے غیروںکی ہمنوائی کی لیکن قائد اعظم کے مزاج کا سانچہ کچھ اس طرح ڈھل گیا تھا کہ وہ لچکنا جانتے ہی نہ تھے وہ ٹوٹنا جانتے تھے مڑنا نہیں۔ ناممکن کا لفظ ان کی لغت میں نہ تھا۔ انہوں نے پاکستان کے لیے انتہائی جدوجہد کی ۔ انکی کوششوں میں خلوص تھا اس لیے قدرت نے بھی ان کی امداد کی اور غیروں کی مخالفت اور اپنوں کی بیگانگی کے باوجود پاکستان بن کے رہا اور پاکستان نے اپنا وجود تسلیم کرا لیا۔
قائد اعظم صیح معنوں میں عظیم انسان تھے۔ ان کے دُبلے پتلے جسم میں ایک ایسا دل تھا جو استقلال اور عزم سے لبریز تھا۔ آپ جب شروع مین انگلستان گئے تو آپ کے خاندان کی ایک بڑھیا رونے لگی کہ قائد اعظم بہت دور جا رہے ہیں اس وقت قائد اعظم نے جواب دیا ۔بی بی ! بے حوصلہ کیوں ہوتی ہو میں وہا ں سے عظیم انسان بن کر آوں گا۔ مجھ پر میراملک فخر کرے گا۔ جب آپ نے بمبئی میں وکالت شروع کی تو ایک انگریز نے آپ کو ڈیڈھ ہزار روپے ماہوار کی ملازمت کی پیش کش کی۔
آپ نے ہنس کر اس پیش کش کو یو ں ٹھکرا دیا”میں اتنے پیسے روز کمانا چاہتا ہوں” اور آپ نے یہ بات سچ کر دکھائی آپ کو خدا پر پورا بھروسہ تھا آپ جب پاکستان کے لیے جدوجہد فرما رہے تھے تو آپ کے بہت سے لوگ دُشمن ہو گئے مسلمانوں نے آپ کی حفاظت کے لیے ایک دستہ مقرر کرنا چاہا لیکن آپ نے پسند نہ فرمایا اور یہ کہا کہ کوئی ضرورت نہیں میرا خدا میری حفاظت کرے گا۔ قائد اعظم جب موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے تو آپ کو کراچی لایا گیا آپ اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ آنکھ بند کر کے دوبارہ کھولنے کی سکت بھی باقی نہ تھی۔ آپ کو جب اسڑیچر پر جہاز سے باہر لایا گیا تو فوج نے سلامی دیدی۔
آپ نے جواب میں اچانک اپنا ہاتھ اُٹھا دیا۔ڈاکڑ متعجب تھے کہ قائد اعظم میں زندگی کی رمق کہاں سے آگئی۔۔۔۔ سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ آخر دم تک صحیح معنوں میں قائد اعظم تھے ۔ آپ کو پاک فوج پر فخر تھا اور آپ اپنی فوج کی عزت و توقیر میں کوئی کَسر نہیں چھوڑتے تھے۔
آج جو لوگ پاک افواج کے خلاف اپنی گندی ناپاک زبان کھولتے ہیں انکے لیے قائد کا آخری وقت تک پاک افواج کو سلام پاک فوج کی عظمت کا منہ بولتاثبوت ہے۔ پاکستان قائد اعظم کی کوششوں کا نتیجہ ہے ہم نے اُسے بہت سی قربانیوں سے حاصل کیا ہمین اسے مضبوط کرنا ہے اس کے درودیوار کے رنگ و روغن کو اپنے خون سے دلآویز بنا نا ہے۔ جب تک یہ قائم ہے اور ایک پاکستانی بھی زندہ ہے قائد اعظم زندہ ہیں اُن کا نام اور اُنکی یاد ہماری متاع ِ عزیز ہے۔
تحریر : اقبال زرقاش