تحریر : زاہد محمود
کسی ترقی پذیر ملک کی کامیابی میں اسکے دوسرے ممالک میں جا کر کام کرنے والے لوگوں کا کردار جتنا اہم ہوتا ہے شاید ہی کسی دوسرے طبقے کا ہو۔ چین ہو یا بھارت اور بنگلہ دیش ان تمام ممالک کی ترقی میں انکے بیرون ملک مقیم باشندوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ان لوگوں نے دوسرے ممالک سے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو سیکھا اور اسے اپنے اپنے ملکوں کی ترقی میں استعمال کیا اور اسکے علاوہ بھاری زرمبادلہ اپنے ملکوں کو بھیجا جس نے ان ممالک کی معاشی ترقی کو سہارا دیا اور اسکے علاوہ اپنے اپنے خاندانوں کے لئے معاشی وسائل پیدا کرنے میں بھی ان لوگوں نے بہت کردار ادا کیا یہ وہی طبقہ ہے جو دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے اپنی ثقافت کو اپنے لباس کو اپنے بہترین رسوم و رواج کو دوسرے ممالک کے لوگوں تک بغیر کسی لالچ کے متعارف کرواتا ہے اپنے اپنے ملکوں سے انکی وابستگی پر کوئی بھی ذی شعور شخص انگلی نہیں اٹھا سکتا اور نہ ہی ان کی حب الوطنی کسی بھی ملک کے اندر رہنے والے شخص کے برابر ہوتی ہے بلکہ بعض مواقع پر زیادہ نظر آتی ہے۔
ارض پاک کے وہ باشندے جو اس وقت اپنے اپنے روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں بھی اسی طرح کا کردار ادا کررہے ہیں جس طرح کا کردار دوسرے ممالک کے بیرون ملک مقیم لوگ کرتے ہیں پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نہ تو تعلیم یافتہ ہے اور نہ ہی ہنر مند جو ہنر مند ہیں بھی انکی بھی اکثریت جدید ٹیکنالوجی سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے وسائل سے پوری طرح مستفید نہیں ہو پارہی جس سے ہماری معیشت آگے بڑھنے سے قاصر ہے ہماری معیشت کو ایک بہت بڑا سہارا جو کہ بیرون ملک پاکستانی ہیں وہ ہیں جو کہ قیمتی زرمبادلہ اپنے اپنے خاندانوں کے بھیجتے ہیں اور ملکی معیشت کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے اپنوں سے دور اپنے خاندان اور اپنے ملک کے لئے کام کرنے والا یہ طبقہ کن مسائل کا سامنا کرتا ہے اسکا اندازہ اسی کو ہوسکتاہے جو یا تو خود ان مسائل کا شکار ہے یا پھر ان کے مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے۔
ملک سے باہر دوسرے ممالک میں دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک برداشت کرنا ۔ خوشی اور غم میں اپنوں سے دوری ۔ اپنے خاندان کے بہتر مستقبل کے لئے موسم کی سختیاں برداشت کرنا اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے خاندان کو بہتر سے بہتر مالی وسائل مہیا کرنا ۔ کسی ایک ملکی باشندے کی غلطی کی صورت میں پوری کی پوری کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا جانا وغیرہ شامل ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے اسکے بدلے میں انکو ہم انھیں کیا دے رہے ہیں ؟
ایک اندازے کے مطابق اس وقت40لاکھ لوگ اپنے اپنے روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں لیکن انکو ووٹ کے حق سے ہم نے ابھی تک محروم رکھا ہوا ہے الیکشن کمیشن کی ناکامی اور نااہلی کا اس سے بڑا کوئی اور ثبوت کوئی نہیں کہ وہ ابھی تک انکو ووٹ کا حق دلانے میں کوئی طریقہ کار وضع نہیں کرسکا ہمارے ایوانوں میں موجو د لوگ بھی اسکے ذمہ دار ہیں اور ابھی تک وہ بھی اس سللے میں کچھ نہیں کر پائے۔
ہماری قابل احترام عدلیہ چاہے وہ ” عالیہ ” ہو یا ” عظمٰی ” دونوں ہی اس کو قابل عمل بنانے سے قاصر ہیں سیاسی جماعتیں جو ہمیشہ عوامی حقوق کی بات کرتی ہیں لیکن اس طبقے کی آواز کا دبانا کسی کو نظر نہیں آتا کیونکہ شعور سے بھرپور اس طبقے نے اگر اپنا ووٹ انکے خلاف استعمال کر دیا تو انکے حلقوں کے نتائج مختلف ہوسکتے ہیں جو کسی صورت بھی ایک جاگیردار اور سرمایہ دارانہ ذہنیت رکھنے والے طبقے کو گوارہ نہیں ۔ وہ غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں جو فلاح عامہ کے نام پر کام کر رہی ہیں اور حجاب کرنے اور نہ کرنے کے مسئلے پر تو باہر نکل آتی ہیں اور احتجاج کرتی نظر آتی ہیں جو کہ شاید 1لاکھ لوگوں کابھی مسئلہ نہ ہو لیکن 40لاکھ لوگوں کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انکے بھی پر جلتے ہیں یا شاید انکو ملنے والی امداد کے ایجنڈے میں یہ شامل ہی نہیں۔
رہ سہہ کر اس طبقے کے پاس احتجاج کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اپنے اس حق کے لئے کھڑا ہوجائے اور اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف اپنے اپنے سفارت خانوں کے سامنے احتجاج کریں اور یہ سوچ اب تیزی سے ابھر رہی ہے کہ یہ طبقہ اب اپنا حق لینے کے لئے اپنی احتجاجی کوشش شروع کرے اپنے ارباب اختیار کو یہ باور کروانا چاہتا ہوں جس دن ان 40لاکھ لوگوں میں سے ایک فیصد نے بھی فیصلہ کر لیا کہ وہ احتجاج کریں تو ملک کی جو بدنامی ہوگی وہ کسی بھی ادارے کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی اور پھر تمام کے تمام کے ادارے ملبہ ایک دوسرے پر ڈالیں گے یہ اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک ہے کیونکہ اس طبقے کی اکثریت نہ تو ان ممالک میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنے ملک میں تو آخر کب تک ہم انکو انکے اس بنیادی حق سے محروم رکھیں گے کب تک ہم انکے پیسوں پر عیاشی بھی کریں گے اور انکو اپنی مرضی کے مطابق حکمران چننے کا موقع بھی نہیں دیں گے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اگر ہم انکو ووٹ کا بنیادی حق نہ دلوا سکیں تو پھر ہمیں اپنے آپکو ایک عظیم اور طاقتور ملک اور قوم کہنا چھوڑ دینا چاہئے اور یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم کچھ بھی کرنے کے اہل نہیں ہیں اور یہ کہ ہم آگے بڑھنا ہی نہیں چاہتے ہم اور ہماری سیاسی جماعتیں کبھی یہ نہیں چاہتے کہ یہ ملک ایک حقیقی جمہوری ریاست بنے ہمارا الیکشن کمیشن جو کہ ایک بے اختیار ادارہ ہے اسے یہ بتا دینا چاہئے لوگوں کو ہمارے نام پر جو استادیاں کی جاتی ہیں ہم اسکے ذمہ دار نہیں ہیں ، ہماری عدلیہ چاہے وہ ” عالیہ ” ہو یا ” عظمٰی ” دونوں کو اب یہ مان لینا چاہئے کہ وہ آئین کی ایسی شقوں پر عملدرآمد کرواسکتے ہیں جوکہ طاقتور آدمی کو متاثر نہیں کرتیں ہماری طاقت اور اختیارات کامنبع ہماری فوج کو بھی یہ بات لوگوں کو کہ دینی چاہئے کہ ہم عوام کو مراعات دینے کے تو حق میں ہیں لیکن انکے حقوق کے حق میں بالکل بھی نہیں۔
نوٹ :۔ کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیے ہیں اپنی اس تحریر میں لیکن اسے ایک محب وطن پاکستانی کی تحریر سمجھا جائے اور توہین عدالت اور غداری جیسے الزامات سے نہ نوازا جائے کیونکہ نہ تو وکیلوں کی بھاری فیس دینے کی اہلیت رکھتا ہوں اور نہ ہی غداری کے الزامات کا دفاع کرنے کا حوصلہ۔ لہذا خوش دلی سے اس تحریر کو قبول کیا جائے اور آئین کے مطابق لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
تحریر : زاہد محمود