تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
پاکستان بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے دنیا بھر کے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر آچکا ہے،پاپولیشن کونسل جو پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات پر کام کررہی ہے۔کونسل نے اس حوالے سے مرتب کردہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2050 ء تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے فہرست میں پانچویں نمبر پر ہو گا۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پاکستانیوں کو بھی اپنی آبادی کی تعداد کا سرے سے علم ہی نہیں جب آبادی کا تعین ہی نہیں کیا جا سکا تو آبادی کے مسائل پر حکومت کیسے کام کر سکتی ہے؟ آبادی کو جانچنے کے لیے پوری دنیا میں مردم شماری کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
مردم شماری سے مراد ملک میں بسنے والے لوگوں کی تعداد اوران کے بارے میں مواد اکٹھا کرنا،آبادی سے متعلق یہ جمع شدہ موادمعاشی و معاشرتی منصوبہ بندی کے لیے معاون ثا بت ہوتا ہے۔کسی بھی ملک میںمردم شماری ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی ضروریا ت کیا ہیں،ملک کی آبادی میں کمی یا اضافہ کتنا ہوا،ملک کی آبادی کا تعلق کس زبان،کس نسل سے ہے،کتنا طبقہ تعلیم یافتہ ہے اور خواندگی کی شرح کیا ہے۔یہ افسوسناک امر ہے کہ ہمارے ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی،ہر دس سال بعد مردم شماری کے عمل کو آٰئینی طور پر ضروری قرار دیا گیا تھا۔
آج پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 68 برس بیت چکے ہیں یہ مقام شرمندگی ہے کہ مختلف وجوہات کی بناء پر وطن عزیز میں محض پانچ مرتبہ مردم شماری کروائی گئی۔اگر باقائدگی سے مردم شماری کا اہتمام کیا جاتا تو اس وقت تک 6مردم شماریاں مکمل ہوچکی ہوتیں اور ساتویں مردم شماری کی تیاری چل رہی ہوتی۔پاکستان میں پہلی مردم شماری آزادی کے ٹھیک چار سال بعد 1951ء میں ہوئی،پھر بالترتیب 1961ئ ،1972ء ،1981ء ،1998ء میں مردم شماری ہوئی۔1972 ء میں ہونے والی مردم شماری کو 1971ء میں ہونا تھا مگر بھارت کے ساتھ جنگ کی وجہ سے یہ مردم شماری ایک سال تاخیر سے ہوئی۔اسی طرح 1991ء میں ہونے والی مردم شماری سیاست کی گہما گہمی کے نذر ہوگئی۔چھٹی مردم شماری 2008ء میں ہونا تھی مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے مردم شماری کروانے کی زحمت ہی گوارا نہ کی۔کاش اس ہم اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ کرپاتے ۔۔کاش ہمارا میڈیا اس مسئلے کو بھی بریکنگ نیوز کا حصہ بناتا،کاش اس اہم مسئلے پر اخبارات میں رپورٹس اور اداریے تحریر کیے جاتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
رپورٹر حضرات اس دور حکومت کے وزراء سے سیاست پر تو سوال کرتے رہے مگر کسی نے گرتے ہوئے معیار تعلیم،ہسپتالوں کی حالت زار اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے خطرناک مسائل پر سوال نہیں اٹھایا۔ہم آج بھی کتنی آسانی سے نان ایشوز کو ایشوز بنا رہے ہیں اور ایشوز کو ردی کی ٹوکری کی خوراک بناتے جارہے ہیں۔جی ہاں مردم شماری ہی وہ عمل ہے جس کی ہی بنیاد پر حاصل کیے گئے اعداد و شمارپر محققین اور تجزیہ کار معاشرے کے مختلف امور پر تحقیق اور تجزیہ کرتے ہیں اور ملک میںمعاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے پیدا یا ختم ہونے کے رجحان کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔مردم شماری کے ذریعے حاصل کردہ مواد پر ہی حکومت آبادی کے معیار زندگی کا مطالعہ کر پاتی ہے،حکومتیں انہی چیزوں کو سامنے رکھ کر ہی پالیسیاں بناتی ہیں آبادی کی ضروریات بھی اسی کلیے کے تحت طے کی جاتی ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے کوئی ملک اس وقت تک کیسے ترقی کرسکتا ہے جب تک اس امر کا علم ہی نہ ہو کہ اس کی آبادی کتنی ہے اور اس آبادی کی بنیادی معلومات کیا ہیں،تعلیمی اعتبار سے آبادی کا کتنے فیصد حصہ تعلیم یافتہ کہلانے کا حقدار ہے؟ موجودہ حکومت کی جانب اس بارے میںخوش آئیند فیصلہ کیا گیا ہے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میںچاروں صوبوں کی رائے سے مارچ 2016 ء میں ملک کی 6ویں مردم شماری کروانے کا اعلان کیاگیا ہے،جس میں ضرورت پڑنے پر سول آرمڈ فورس اور پاک فوج کی خدمات بھی فراہم کی جائیں گی۔یہ بات حوصلہ افزاء ہے یقینا اس فیصلے کو سراہا جانا چاہیئے۔پچھلے ادوار میں کروائی گئی مردم شماریوں پر کئی سوالات اٹھا ئے جاتے رہے ہیں۔اس سلسلے میںاگر حکومت چند اقدامات کر لے تو اس عمل کو مزید شفاف بنایا جا سکتا ہے۔جیسے اس مرتبہ مردم شماری کے لیے پڑھے لکھے نوجوانوں کو شامل کرنا چاہیے۔
اس عمل کو مزید بہتر بنانے کے لیے آئی ٹی ماہرین کی مدد لینے میں کوئی حرج نہیں تاکہ مردم شماری کے عمل کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ 2016 ء میں کی جانے والی مردم شماری کی اس طرح سے جامع منصوبہ بندی کی جائے کہ حاصل کیے جانے والے اعداد و شمار حقیقی ہوں پھر انہی کے مطابق آبادی کے مسائل اور ضروریات کو فوکس کیا جا سکے تاکہ ملک صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر چل سکے۔
تحریر: فرخ شہباز وڑائچ farrukhshahbaz03@gmail.com