تحریر: شاہ بانو میر
لاہور کے ضمنی الیکشن پر اہلیان پیرس کی رائے جانچنے کیلئے ویب سائٹ اوپن کی تو الیکشن پر خبر نہیں ملی مگر انبار خبروں کا مل گیا تمام سیاسی جماعتوں کی خبریں تھیں جن کے سربراہ عرصہ دراز سے سیاست سے منسلک ہیں معتدل رویے اور پارٹی کا بہترین تاثر ہمیشہ ان سیاستدانوں نے اپنے اعلیٍ ظعرف سے جھگڑوں کو اندر نمٹا کر باہر خوبصورت یکجہتی کا پیغام دیا مگر افسوس واحد یہی ایک جماعت ہے جس کے رہنما عمر رسیدہ ہیں تو بھی سیاسی نا پختگی کے حامل ہیں نتیجہ یہ سب پڑھ کر مجھے لکھنے کیلئے تکلیف دہ حقائق تحریر کرنا پڑا امید ہے کہ کچھ منفی سوچ کے حامل اس تحریر کے بعد خبروں کا بے ہنگم سلسلہ نہین شروع کریں گے۔
ادارے اپنے سربراہ کی سوچ کے آئینہ دار ہوتے ہیں اسی لئے لکھنا پڑا کہ سربراہ کنٹرول کریں ایسی بے ضابتگیاں نظام کو باقاعدہ آئینی طور پر چناؤ کے بعد بھی ریاست کے اندر ریاست بنوا کر چلنے نہیں دیا گیا البتہ ہر کوئی مُسکرا اٹھتا ہے جب ایک مہینے کے اندر مقابلے پر ادارے قیام میں آتے پڑھتا ہے کمزور سیاسی سوچ اور ناقص حکمت عملی کا عملی مظاہرہ ہے کسی ادارے کی بنیاد ہی مضبوط نہ ہونے دی جائے اور اداروں پے اداروں کا قیام عام انسان کو متاثر کر سکتا ہے لیکن سنجیدہ سوچ رکھنے والے محض تماشہ سمجھتے ہیں بے بنیاد تنظیم مضبوط ادارے کیسے تعمیر کر سکتی ہے؟۔
ضرورت اداروں کی نہیں سب سے پہلے جماعت کی تنظیم کی مضبوطی کی ہے ایک طرف آئینی طور پے چنے ہوئے رہنماؤں کی اکثریت اور ان کے پہلی بار عملی اقدامات اور دوسری جانب حیرت زدہ رہ گئی جب انصاف کے منصفین کو سرعام بیٹھا نہ صرف دیکھا بلکہ ان کی جانب سے بالکل نواز شریف کی طرح خوشنما پیکجز بیان کرتے بھی پڑھا ؟ کیا یہ کیس طور ممکن ہے؟ کہ منصفین کو تو الگ رہائشی کالونیاں دی جاتی ہیں کہ وہ عام لوگوں سے قدرے دور ایک خاص فاصلے پر رہیں اس لئے کہ انصاف کا شعبہ بیحد حساس ہے مگر ان کیلئے جو انصاف کی روح کو اسلام قرآن سے متعلق جانتے ہوں۔
یہاں تو ایسا لگا کہ تمام اہل انصاف بے انصافی کرتے ہوئے سرعام عام لوگوں میں بیٹھے خبروں تصویروں سے پیغام دے رہے ہیں کیا معیار ہے ایسے ادارے کا جس کے منصفین جانبدار ہوں.؟ کیا الیکشن کمیشن پر اور انصاف کے شعبے پر ہر طرف لگی یہ خبریں ان شخصیات پر ان کے شعبے پر سوالیہ نشان نہیں اٹھا رہیں؟ میں آزاد تجزیہ کار کی حیثیت سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ وہ کونسا منصفی کا ادارہ ہے جہاں کئی جج بیٹھ کراپنے سربراہ کا نام استعمال کر کے خود کو جانبدار دکھائیں بہت خطرناک انداز ہے سیاست کا خبریں پڑہیں جو 4 سال پہلے تھے وہی باتیں وہ اعتراضات سب کے سب بغیر کسی تبدیلی کے سامنے موجزن تھے۔
تبدیلی آئی تو صرف اتنی جب منصفین دھڑلے سے ایک طرف بیٹھے دکھائی دے رہے ہوں اور ساتھ ساتھ نئے آنے والوں کو پرکشش مرعات دے رہے ہوں ؟ پاکستان میں نواز شریف حمایت کرے اپنے بندے کی توہمارے سربراہ قیامت بپا کر دیں اسکومجرم قرار دیں اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کے درپے ہوں اور خود اپنے سیاسی ادارے میں ہرسیاسی حربہ اُن جیسا دکھائی دے رہا ہے یہ کیسا ادارہ ہے؟ رہنما جب کسی شعبے کا کمزورہو اور مشیر طاقتور تو رہنما کی کرسی بھی دراصل انہی مشیروں کے سر پر ہوتی ہے۔
ان کی باتیں نہ سننے کی پاداش میں انہیں ان کے “””عہدے”” سے محروم کیا جا سکتا ہے
کسی سیاسی رہنما کایہ بیان کہ وہ جماعت میں بغورمعائنہ کر کے تیز طرار اور جھگڑالو صفت فورا پینترہ بدلنے والے کچھ لوگ چن لیتے ہیں تا کہ طاقتور شعبہ بنا سکیں کہ ایسے لوگ ہی پاکستان کی سیاست میں کامیاب ہیں جو وقت آنے پر کچھ بھی کر گزرتے ہیں طاقتور سیاسی جماعت کا یہ کمزور حال دیکھ کر صرف ایک خیال ابھر رہا ہے نجانے کب یہ جماعت پختہ سوچ کے ساتھ اپنے رہنما کی طرح شور کی بجائے تصفیہ کرنا سیکھے گی آگے بڑہنا سیکھے گی عزت ہر عام کی کرے گی اللہ پاک اس آرٹیکل کو پڑھ کر خامیوں کو درستگی کی توفیق عطا فرمائے اور انصاف کو قرآن پاک کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق نافذالعمل کیا جائے آمین۔
تحریر: شاہ بانو میر