تحریر: محمد شاہد محمود
سعودی عرب کے فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے واضح کیا ہے کہ ان کے ملک کے خلاف سرگرم خفیہ سازشی ہاتھ اپنی ریشہ دوانیوں میں کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گے۔ سعودی عرب میں بدامنی، سیاسی انارکی، فرقہ واریت اور عالم اسلام میں انتشار پھیلا کر سعودی عرب کو کمزور نہیں کیا جاسکتا اور نہ کسی دشمن ملک کی سازشوں سے سعودی عرب کی حجاج و معتمرین کرام کی خدمت کے فریضے کی انجام دہی میں کسی قسم کی منفی اثرات مرتب کیے جاسکتے ہیں۔
شاہ سلمان نے ریاض میں سعودی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ان کا ملک کسی خفیہ ہاتھ کو اپنی مکروہ سازشوں کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دے گا۔ سعودی حکومت اور عوام نے تمام تر صلاحیتیں اللہ کے مہمانوں کی خدمت اور ان کے تحفظ و سلامتی کے لئے وقف کر رکھی ہیں۔ سعودی عرب کا کوئی دشمن ہمیں حجاج کرام کی خدمت سے نہیں روک سکتا۔ شاہ سلمان نے خطاب میں سانحہ منیٰ پر سعودی عرب کے ساتھ اظہار ہمدردی پر پورے عالم اسلام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ منیٰ حادثے کے بعد بعض دشمن عناصر کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف ایک منفی اور مکروہ سازشی مہم چلائی گئی مگرہم ایسی سازشوں اور ان کے پیچھے سرگرم خفیہ ہاتھوں کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
اللہ کے گھرکی زیارت کے لئے آنے والے فرزندان توحید کی خدمت اور ان کا تحفظ ہماری دینی اورقومی ذمہ داری ہے۔ کوئی دشمن ہمیں اس ذمہ داری سے نہیں روک سکتا۔شاہ سلمان نے جمہوریہ یمن میں مستحکم قومی حکومت کے قیام اور امن وخوشحالی کے قیام تک صنعا کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اجلاس کے بعد وزیرثقافت واطلاعات ڈاکٹر عادل بن زید الطریفی نے بتایا کہ کابینہ نے شاہ سلمان کی جانب سے مسجد حرام میں کرین حادثے میں شہید اور زخمی ہونے والے حجاج کرام کے لواحقین کو معاوضوں کی ادائیگی کا حکم دینے کا شکریہ ادا کیا ہے۔
سانحہ منیٰ کے بعد سعودی عرب کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا۔سانحہ منیٰ میں شہید ہونے والے پاکستانی حجاج کی تعداد101 ہوگئی ہے جبکہ لاپتہ حاجیوں کی تلاش کا کام جاری ہے۔وزارت مذہبی امورکی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق گزشتہ روزشناخت کی جانے والی 15حجاج کی لاشوں کو مکہ میں سپردخاک کردیاگیا۔ سپردخاک کیے جانے والے حجاج میں کراچی سے تعلق رکھنے والے یامین، تاج مینا،بخت زمان خان، میر کاظم، عبد الغنی،اسکردوکے غلام محمد،عبدالرحیم، مکران کی عائشہ ندیم،جھنگ کے سراج الدین، گجرات کے اصغر علی،خالدی بیگم، میر پورآزاد کشمیر کی سیدہ نرجیس شہناز،اپر دیر کی طاہرہ بیگم اوربنوں کی ایک خاتون شامل ہے۔
سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے حج کے انتظامات میں دیگر مسلم ممالک کو شریک کرنے کی تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اس کو ‘خود مختاری اور استحقاق’ کا معاملہ سمجھتا ہے۔ سعودی عرب نے گذشتہ کئی سالوں میں مختلف حالات میں حج کا انتظام کیا جن میں بیماریاں، رہائش کے مسائل وغیرہ شامل تھے۔ ہم اپنا استحقاق یا خادمین حرمین شریفین کا امتیاز نہیں جانے دیں گے۔ سعودی شاہی خاندان شہزادہ ترکی الفیصل نے یہ بات ایسے وقت کی ہے جب سعودی عرب پر سانحہ منیٰ کے بعد تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل ایران نے منیٰ سانحے پر ریاض پر بدانتظامی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک آزاد ادارے کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جو حج کے انتظامات کو دیکھےـ شہزادہ ترکی نے کہا کہ ‘مقدس مقامات اور حج کی نگرانی سعودی عرب کے لیے خود مختاری اور استحقاق کا معاملہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مکہ کے لوگ اس علاقے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ حق آپ مکہ کے لوگوں سے نہیں لے سکتے۔’ترکی الفیصل سعودی شاہی خاندان کے سب سے سینیئر ممبر ہیں جنھوں نے پہلی بار ایران کی جانب سے تنقید کا جواب دیا ہے۔ ترکی الفیصل دو دہائیوں تک سعودی عرب کے انٹیلیجنس کے سربراہ رہے ہیں اور اس کے علاوہ برطانیہ، آئر لینڈ اور امریکہ میں سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے بھائی شہزادہ خالد الفیصل مکہ کے گورنر ہیں۔ شہزادہ ترکی الفیصل ابو ظہبی میں ایک تھنک ٹینک بیروت انسٹیٹیوٹ کے پروگرام کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ الفیصل نے کہا ‘یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس واقعے سے ایران سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ایرانی رہنما یہ بات بار بار کر چکے ہیں۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے حج انتظامات میں دوسرے ممالک کو شریک کرنے کا مطالبہ درست نہیں۔ حجاج کرام کیلئے بہترین انتظامات پر پورا عالم اسلام مطمئن ہے۔حادثات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ کسی اتفاقی حادثہ کی بنیاد پر بے بنیاد پروپیگنڈا اور امت میں اختلافات پیدا کرنے کی کسی صورت تائید نہیں کی جا سکتی۔
پاکستانی قوم سعودی عرب کی خدمات پر اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مملکت سعودی عرب کی جانب سے حج بیت اللہ کی خاطر آنے والے مسلمانوں کیلئے ہمیشہ اعلیٰ ترین انتظاما ت کئے جاتے اور حجاج کرام کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اگر اتفاقیہ طور پر کوئی حادثہ پیش آجائے توقطعی طور پر اس کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتااور نہ ہی حج انتظامات میں کسی دوسرے ملک کو شریک کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ایسی باتیں امت مسلمہ میں اختلافات پیدا کرنے کا سبب بنیں گی۔ سعودی حکومت کی جانب سے حجاج کرام کیلئے ہر سال پہلے سے بڑھ کر انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں سرانجام دی جاتی ہیں۔امسال بھی لاکھوں افراد کیلئے بہترین انتظامات کئے گئے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حج کیلئے جانے والے مسلمان سعودی حکومت کی جانب سے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کریں تاکہ ممکنہ طور پر پیش آنے والے حادثات سے بچا جاسکے۔ مملکت سعودی عرب کی طرف سے حجاج کرام کیلئے کئے جانے والے مثالی انتظامات کی ساری دنیا معترف ہے اور اللہ کے مہمانوں کی خدمت وہ اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے ہوئے اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ کسی ملک یا شخصیت کو ایسے کسی قسم کے مطالبہ سے گریز کرنا چاہیے جس سے امت میں انتشار و افتراق پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ پاکستان علماء کونسل کے طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ منیٰ حادثہ پر سیاست بند کی جائے ، سعودی حکومت نے حج انتظامات اور زائرین کی خدمت میں کبھی کوتاہی نہیں کی ۔ بعض شر پسند قوتیں پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی کے امن سے کھیلنا چاہتی ہیں اور مسلم مماک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتی ہیں ، لیکن مسلم امہ کو سعودی حکومت خادم الحرمین الشریفین کے حجاج اور زائرین کے لیے خدمات پر فخر ہے اور امت مسلمہ حج اور عمرہ کے مسئلہ پر سعودی حکومت کے علاوہ کسی بھی اور حکومت یا قوت کی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گی۔ پاکستان کی وزارت مذہبی امور منیٰ حادثہ کے شہداء کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے او ر اب اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داری وہ سعودی حکومت پر ڈالنا چاہتی ہے۔
تحریر: محمد شاہد محمود