پٹنہ (کامران غنی) شعبۂ اردو ،پٹنہ یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالرز کی تنظیم ”بزم تحقیق” کے زیر اہتمام گزشتہ 8اکتوبر سے چل رہی ”سر سید تقریبات” آج انتہائی کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔اختتامی تقریب کی صدارت مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کی جبکہ نظامت کا فریضہ شعبہ کے استادڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے انجام دیا۔
اختتامی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر قاسم خورشید، صدرلینگوئجز،ایس سی ای آر ٹی،پٹنہ نے شرکت کی۔پروفیسرسید عبد الباری،شعبۂ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،مشتاق احمد نوری ، سکریٹری بہار اردو اکادمی،پٹنہ اور ڈاکٹر محمد اسرائیل رضا، سابق صدر شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی مہمانان اعزازی کی حیثیت سے شریک محفل تھے۔تقریب کا آغاز شعبہ اردو کے طالب علم عارف حسین کی تلاوت سے ہوا۔محمد منہاج الدین نے ”بزم تحقیق ” کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے تنظیم کے اغراض و مقاصد اورمستقبل کے منصوبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔خورشید اکبر، ڈپٹی ڈائرکٹر اردو ڈائرکٹوریٹ، پٹنہ نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے سر سید کی علمی خدمات کا اعتراف کیا۔
انہوں نے کہا شخصیات کامطالعہ کرتے ہوئے ہمیں غیر جانبداری سے محاسن و معائب دونوں پہلوئوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ خورشید اکبرنے کہا کہ بلاشبہ سر سید کی خدمات نا قابل فراموش ہیں لیکن ان کی شخصیت کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً سر سید اس بات کے حامی نہیں تھے کہ ہندوستان کے مسلمان ملک کی قومی سیاست میں براہ راست شامل ہوں۔ خورشید اکبر نے مزید کہا کہ سر سید تعلیم نسواں کے بھی خلاف تھے نیز وہ ایک مخصوص طبقے کے نمائندہ تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک معمار قوم کی حیثیت سے سر سید کے یہ منفی پہلو ان کی شخصیت کو مجروح کرتے ہیں۔
پروفیسر سیدعبدالباری نے سر سید کی پٹنہ شہر سے قلبی وابستگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی انہوں نے خورشید اکبر کے اس خیال کی تردید کی کہ سر سید کسی مخصوص طبقے یا گروہ کے نمائندہ تھے۔ مشتاق احمد نوری نے سر سید کی قومی، علمی اور سیاسی بصیرت پر کھل کر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سر سید احمد خاں نے کسی خاص مذہب یا طبقے کے لئے کام نہیں کیا بلکہ اپنی تحریک میں انہوں نے برادران وطن کو بھی شامل کیا۔ انہوں نے کہا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا سب سے پہلا گریجوئٹ ایک غیر مسلم شخص ہے ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سر سید نے ہر طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا۔ مشتاق احمد نوری نے کہا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے قیام کے پیچھے بھی سر سید اور ان کی تحریک کا ہی اثر تھا۔ انہوں نے کہا کہ سر سید نے ہندوستان میں تعلیمی انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ ڈاکٹر قاسم خورشیدنے کہا کہ سر سید کا زمانہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرانتشار و افتراق کازمانہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ سرسید مستقبل کے بڑے نباض تھے، انہیں قوم کی تعلیمی پسماندگی اوراس پسماندگی کی وجہ سے مستقبل میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ ہزار مخالفتوں کے باجود وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ڈاکٹر محمد اسرائیل رضا نے ”سر سید تقریبات” کے کامیاب انعقاد پر ”بزم تحقیق” کے منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ سرسید نے قوم کی ذہنی تنگ نظری اور منافقانہ رویہ کوختم کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ بحیثیت انسان ہر شخص کے اندر کچھ نہ کچھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی ہمیں سر سید احمد خاں کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر اسرائیل رضا نے کہا کہ آج کے عہد میں بھی ایک سر سید کی ضرورت ہے جو قوم کو پسماندگی اورذلت کے بھنور سے نکال کر عروج و سر بلندی کے جزیرے تک پہنچا سکے۔اپنے صدارتی خطبہ میں پروفیسر اعجاز علی ارشد نے سر سید کی علمی ، ادبی ، سیاسی اور قومی خدمات پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ہر عہد کی اپنی ترجیحات اورتقاضے ہوتے ہیں۔ سر سید کے عہد کی یہ ترجیح تھی کہ مسلمان قومی سیاست میں براہ راست شامل نہ ہوں۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ سر سید نے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق کام کیا۔ صدارتی خطبہ سے قبل ”سر سید تقریبات’ ‘ کے تحت مختلف پروگراموں میں کامیاب طلبہ و طالبات کو انعامات سے نوازا گیا۔ ” بزم تحقیق ” کی صدر ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے ”بزم تحقیق”کے زیر اہتمام گزشتہ 8 اکتوبر سے شروع ہوئی سر سید تقریبات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک و بیرون ملک میں سر سید تقریبات منائی جا رہی ہیں لیکن اس سلسلۂ تقریبات کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا اہتمام ریسرچ اسکالرزکی طرف سے کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے مشفق اساتذۂ کرام کی رہنمائی میں اس طرح کے پروگرام کا انعقاد کر کے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر زرنگار یاسمین نے کہا کہ سر سید تقریبات کے انعقاد سے ایک طرف جہاں ہمیں سر سید کے تعلق سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا وہیں اس پانچ روزہ تقریبات سے ہمیں اپنی انتظامی و انصرامی صلاحیتوں کو بھی نکھارنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر اشرف جہاں ، سابق صدر شعبہ اردو نے تمام مہمانوں اور سامعین کا شکریہ اداکیا۔آج کی تقریب میں ڈاکٹر صفدر امام قادری، ڈاکٹر مسعود عالم کاظمی، ڈاکٹر صوفیہ نسرین، سرور عالم ندوی، پروفیسر کلیم الرحمن، محمد اصغر، محمد منتصر سمیت ریسرچ اسکالرز، طلبہ و طالبات اور کثیر تعداد میں باذوق سامعین موجود تھے۔