counter easy hit

مگر ….ایسے استاد بھی ہوتے ہیں

Teachers

Teachers

تحریر: ع.م.بدر سرحدی
دانشور رضا علی عابدی لکھتے ہیں ”آج انٹر نیٹ کا دور ہے دل خراش ویڈیو دیکھی جس میں استاد معصوم ننھے بچوں پر …. ”استاد ایسے بھی ہوتے ہیں’ویڈیومیںکسی گاؤں کا غالبا سندھ کے گاؤں کا منظر تھا ،پہلے تو ایسے لگا کہ زمین پر پانچ مینڈک کھڑے ہیں جب کیمرا قریب گیا تو وہ چار چار سال کے پانچ معصوم بچے تھے جنہیں استاد نے مُرغا بنا رکھا تھا کیا معلوم کب سے اُن بچوں نے اپنی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے کان پکڑ رکھے تھے اور نہیں معلوم کہ وہ کون جلاد ڈصفت استاد تھا جو یہ ظلم ڈھا رہا تھا۔

اگلے منظر میں استاد صاحب نمودا ر ہوئے اُن کے ہاتھ میں لمبی سی قمچی تھی جسے ہوا میں لہرا کر پہلے ایک معصوم بچے کی کمر پر رسید کی پھر دوسرے کی اسی طرح پانچوں جھکے ہوئے بچوں کی کمر پر چھڑی ماری پانچوں بچے اپنی کمر سہلاتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے ،اب استاد نے انہیں دوبارا مُرغا بننے کا حکم دیا جو وہ بڑی سعادت مندی سے بن گئے ،س بار استاد کے اندر سے ایک بے رحم اور سفاک انسان برآمد ہوأاور اس نے پانچوںکو پیچھے سے جا کر لاتیںماریںاور بچے گاؤں کی کچی مٹی میںوندھے منہ گرے اِس روز جی چاہا کہ گاؤں کی وہی کچی زمین پھٹے اور یا تو میں اِس میں سما جاؤںیا اِس شخص کو گاڑ دوں جسے استاد کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

پھر ایسے استاد کا زکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں میں میرٹھ کی تحصیل ہا پوڑ میں گورنمنٹ ہائی سکول میں زیر تھا مجھے اپنے ایک استاد یا ہیں افسوس اُن کا نام یاد نہیں ہم چار پانچ لڑکے اسکے گھر ٹیوشن پڑھنے جاتے شفقت سے پڑہاتے…..” وہ میرٹھ کی اک تحصیل مین پڑحتے تھے مگر اُنہوں نے سن نہیں لکھا کب پڑھتے تھے یہ پڑھ کر مجھے بھی اپنی ابتدائی تعلیم کا زمانہ یاد آ گیا یہ کوئی پون صدی قببل ٩٤٢ ١، میں مشن پردہ سکول ہوتی مردان میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا ،آج لڑکیوں کے سکول کو گرل سکول کہا جاتا ہے مگر اُس زمانے میں پردہ سکول کہا جاتا تھا،ٹاٹ سکول نہیں تھا ہر کلاس میں بان کی بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی پیڑیاں ہوتیں جن پر بچے بیٹھ کر پڑہتے اس شفقت اور محبت سے پڑہاتے میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں بیان کر سکوں میری ماں کو فوت ہوئے ایک یا دو ماہ تھے یتیم بھی تھا۔

میتھ کا پیرڈ تھا ہم تیسری کلاس کے بچے پیڑیاں لئے میتھ ٹیچر کے پاس پڑھ رہے تھے میرے پیچھے بیٹھی لڑکی نے پشتوں میں ہولے سے کہا مبادہ مِس سُن نہ لے تیرے سر میں جوں ، میں نے بھی اُسے اُسی لہجے میں کہا چپ رہو … مگر ٹیچر نے ہماری سر گوشی سُن لی اُس نے میری طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا اُس نے پوچھا کیا بات ہوئی تو جواب کی بجائے میری آنکھیں بھر آئیں،اُس نے لڑکی کی طرف انگلی کا اشارہ کیا تو اُس نے کھڑے ہو کر کہا مِس اِس کے سر میں جوئیں ہیں جوئیں،تب میری آنکھیں چھلک گئیں (اُس دن کے بعد جب بھی وہ منظر یاد آتا ہے آنکھیں بھر جاتی ہیں )اُس ٹیچر کا نام آج بھی یاد ہے مِس رام کو علم تھا میری ماں مر گئی ہے،اُسنے کہا پیڑھی لے کر آؤ اور میں ڈرتے ڈرتے اُس کے قریب گیااُس نے اپنے آگے بٹھا لیا اور میری جوئیں نکالنے نے لگی ،پھر ہر روز اُس کی یہی ڈیوٹی تھی کلاس کو میتھ بھی پڑھانا اور میرا سر دیکھنا جب تک یہ صاف نہیں ہوأ ایسے استاد بھی ….۔ اس دنیا میں بڑے بھائی کے سوا کوئی نہ تھا، جو رائل نیوی میں تھا ،اُسے لند ن کے لئے آرڈر ملا،اُس زمانہ میں بحر ہند بھی جاپانی بم باروں کی زد میں تھا کوئی بحری جہاز بحر ہند سے سلامت نہیں گذر سکتا تھا حتیٰ کہ پرنس آف ویلز بھی جس پر ایک دنیا آباد بنکاک کی طرف جاتے ہوئےkuantan کے قریب سمندر میں ڈبو دیا جس پربرطانوی وزیر آعظم چر چل نے کہا آج ہماری کمر ٹوٹ گئی جاپانی بمبار کلکتے اور برما تک مار کرتے تو بھائی بھی اِسی خوف سے کہ دو چھوٹے یتیم بھائی اور بہن ان کا کیا ہوگا۔

کلکتے سے فرار ہوکر ہمیں لئے فاٹا میں چھپتا رہا ،لیکن میں حوادث زمانہ کے تھپیڑے کھاتا گھومتا رہا…. ،مزید لکھتے ہیں” کراچی کے اسلامیہ کالج سے مزید تعلیم حاصل کی یہ کالج اے ایم قریشی نے قائم کیا تھااور گرو مندر کے پیچھے ایک بڑی عمارت میں واقع تھا سنا ہے کہ قریشی مرحوم دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں فوج میں ٹرک ڈرائیور تھے اور خود تعلیم سے محروم تھے لیکن ……”اِ س تحریر میں دو اشارے تھے ایک تو سفاک استاد جو بچوں کو مرغے بنا کر پیچھے سے ٹھڈے مارتا ہے یہ پڑھتا گیا اور ماضی میں پون صدی پیچھے چلا گیا کہ مجھے اُس وقت کی استاد جو ایک خاتون تھی سے ماں جیسی شفقت ملی اور دوسرا اسلامیہ کالج کراچی کے بانی فوج میں ایک ٹرک ڈرائیور تھے اس سے مجھے یہ کہنے کا حوصلہ ملا کہ میں بھی نومبر ١٩٥١ میں فوج میں ٹرک ڈرائیور ہی تھا مگر خود کو فوجی زندگی میں ایڈجسٹ نہ کر سکا تو میں نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ٩٥٤ ١ میں فوج مفرور ہوأ مگر جلد گرفتا ر کر لیا گیا۔

رات میں کوارٹر گارڈ میں پڑا سوچ رہا تھا کی صبح پیشی پر کیا بہانا بناؤں گا اور …صبح جب کرنل صاحب کے پیش ہوأ انہوں نے پوچھا کیوں غیر حاضر رہے تو میںنے ایسا افسانہ سنایا کہ کرنل صاحب سوچ میں پڑ گیا معمولی سزا سات دن کے لئے پِٹھو پریڈ کا حکم دیا اور بس ،اور یہ افسانہ پاڑے کی قید میں ٥٦ ٩ا، میں اداب عرض لاہور میں شائع ہوأ،اور پھر میں نے باقائدہ فوج چھوڑ نے کہ لئے اپنے کمپنی کمانڈر کپٹن ربنوازسے کہا سر میں اب مزید فوج میں نہیں رہ سکتا مجھے ڈسچارج کرا دیں ، دو وجوہات بتائیں اور کہا ڈسچارج نہیں ہو سکتے نیز کہا خود پر ظلم نہ کرو تم بہت جلد افیسر بن جاؤ گے ،مگر میں نے فوج چھوڑ دی کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے ….چند غزلیں کہیں جو وقتا فوقتا ہفت روزہ قندیل جس کے ایڈیٹر شیر محد اختر تھے میں شائع ہوئیں۔

ایک غزل پندرہ روزہ استقلال میں شائع ہوئی جس کے شعر کا ایک مصراع ، برق گلشن کی نگہباں ہے خدا خیر کرے ، ایڈیٹر نے حذف کر دیا کہ ایوب خان کا ماشل لاء تھا،اس غزل کا مجھے دس روپئے کا چک ملا تھا،اور پھر اگلے برسوں میں فکرِ معاش نے میرے ذہنی قویٰ معطل کر دئے تھے ،قلم کی بجائے میرے ہاتھ میں سٹیرنگ آگیاساتواں عشرہ یونہی گذرا ، شعر و سُخن ابال بیٹھ گیا ماضی کے حالات نے نثر لکھنے کی ترغیب دی اور ٢٩ جنوری ٩٧٠اء کوپہلا فیچر مضمون مولانا محمد حسین آزاد کی برسی پر ندائے ملت میں شائع ہوأ،اخبار کا ایک ٹکڑا جس پر نام اور عنوان ہے وہی آج ہے ،آٹھویں عشرے میں نوائے وقت میں جو شائع ہوأ ضائع ہو گیا. .ایک کالم میں. ساری تفصیل ممکن نہیں،نوے کی دھائی میں مرحوم امروز،مشرق ،نوائے اور جنگ بھی آگیاتھا میں کالمز چھپتے رہے آج تک چھپ رہے ہیںملک سے باہر بھی شائع ہوتے ہیں۔ جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ،اے ایم قریشی مرحوم نے سکول کا ایک سسٹم چھوڑا،جب تک یہ سکول اور کالج ہیں مرحوم کا نام زندہ ہے ، میری ایک کتاب چھپ چکی ہے ،عنقریب افسانوں کا امجمموعہ شائع ہو گا،پھر طبع شدہ مضامین کو کتابی شکل دی جائے گی ایک اور کتاب جس میں چند انگریزی او ر چند عبرانی کے لفظوں پر بحث کی عنقریب شائع ہوگی

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی