تحریر : کلیم اللہ
پاکستان اور سعودی عرب کی خصوصی فورسز کی انسداد دہشت گردی سے متعلق مشترکہ مشقیں جہلم کے قریب شروع ہوگئی ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ”الشہاب اوّل” کے نام سے کی جانیوالی مشترکہ مشقوں کے دوران انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تربیت پر توجہ مرکوز رکھی جائیگی۔ ان مشقوں کا مقصد دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے نئے راستے تلاش کرنا اور مہارت میں اضافہ کرنا ہے۔ مشقوں کے آغاز پر کورکمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل عمر فاروق درانی نے دونوں ممالک کی خصوصی فورسز کی مشترکہ مشقوں کا معائنہ کیا اور انکی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور محنت کو سراہا۔
عسکری ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی سے متعلق دونوں ممالک کی یہ پہلی مشترکہ مشقیں ہیں۔ رواں سال مارچ میں دونوں ممالک کے درمیان معمول کی مشترکہ فوجی مشقیں سعودی عرب کے شہر طائف کے قریب منعقد ہوئی تھیں۔ الشہاب اوّل کے نام سے بارہ روزہ مشقیں جہلم کے قریب انسداد دہشت گردی قومی تربیتی مرکز میں ہو رہی ہیں جو 31 اکتوبر تک جاری رہیں گی۔ مشقوں میں حصہ لینے کیلئے سعودی فوجیوں کا 57 رکنی دستہ پاکستان آیا ہے۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری حکام مشقوں کا معائنہ کریں گے۔
سعودی عرب کی مسلح افواج کی جانب سے کچھ عرصہ قبل ”شمشیر عبداللہ ”کے نام سے جنگی مشقیںکی گئیں جس کے اختتام پر ولی عہد اور نائب وزیر اعظم وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیر صدارت ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سمیت متعدد عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے سیاسی و عسکری قائدین نے شرکت کی مشقوں کے اختتام پر سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے “شمشیر عبداللہ نامی جنگی مشقوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مملکت کے تمام دفاعی اداروں نے ان جنگی مشقوں میں حصہ لیا اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت کو ثابت کر دکھایا ہے۔ملک کے جنوبی، شمالی اور مشرقی علاقوں میں بیک وقت جنگی مشقیں سعودی تاریخ کا اہم ترین واقعہ تھا۔
اختتامی تقریب سے قبل مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں نے سعودی عرب کی مسلح افواج کی جنگی مشقوں کا معائنہ کیا۔ صحراء کی سخت گرمی میں ہونے والی جنگی مشقوں میں فوجی دستوں نے بھرپور انداز میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت کا مظاہرہ کیا جس پر حاضرین حیران رہ گئے اور بیرون ملک سے آنے والے تمام مہمانوں نے سعودی عرب کی فوج اور اس کی دفاعی صلاحیت کو سراہا۔فوجی مشقوں کے دوران جنگی ہوائی اور بحری جہازوں، ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں، میزائلوں اور میزائل شکن سسٹم کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ان تاریخی جنگی مشقوں میں سعودی عرب کی مسلح افواج نے ثابت کیا کہ وہ ہر قسم کے سکیورٹی چیلنجزسے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں ، ملک کی سرحدوں اور مقدسات کے محافظ اداروں کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی طاقت سعودی عرب کوان شاء اللہ میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی اور یہ کہ مسلح افواج سعودی عرب کی طرف بڑھنے والے دشمن کے ہرہاتھ کو کاٹ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
سعودی عسکری ماہرین کے مطابق یہ مشقیں کسی دیدہ اور نادیدہ دشمن کے لیے واضح پیغام تھیں کہ مملکت سعودی عرب اپنے دفاع سے غافل نہیں اور قومی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے کا پوری قوت سے مقابلہ کر سکتا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوتی رہیں خاص طور پر نائن الیون کے بعد پالیسیوں میں تغیرات کے باعث بعض مرتبہ یہ چیزیں تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتی رہی ہیں مگراس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ مملکت سعودی عرب نے ہر موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا اورہر مشکل وقت میں مددکا حق ادا کیا ہے۔ سعودی عرب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔
جب کبھی بھی زلزلے و سیلاب یا تھرپارکر جیسے علاقوں میں قحط سالی کی صورتحال پیدا ہوئی سعودی عرب اسی وقت وطن عزیز پاکستان کے مصیبت زدہ عوام کا سہارا بنا ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہو، روس کے افغانستان پر حملہ کے وقت افغان پناہ گزینوں کی امداد کا مسئلہ ہو، آزاد کشمیر و سرحد میں آنے والا خوفناک زلزلہ یا 2010ء اور 2011ء میں آنے والے خوفناک سیلاب ہوں سعودی عرب کبھی پیچھے نہیں رہا۔حتیٰ کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنا تھے اور امریکہ ویورپ سمیت پوری دنیا کا دباؤ تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکوں سے باز رہے۔ان مشکل ترین حالات میں بھی سعودی عرب نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کا حوصلہ بڑھایا اور اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس طرح اگر یہ کہاجائے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کا کردار ہے تو یہ بات غلط نہ ہو گی۔
یہ ساری رپورٹ سعودی اخبار المدینہ میں تفصیل سے شائع ہو چکی ہے۔بہرحال اسلام دشمن قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ مسلمانوں کے روحانی مرکز کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے۔اس مقصد کیلئے یمن میں حوثی باغیوں کی پشت پناہی کر کے وہاں بغاوت کھڑی کی گئی اور سعودی سرحدوں پر خطرات کھڑے کئے گئے۔ اسی طرح سعودی عرب کے اندر بم دھماکوں اور خودکش حملوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی تاکہ یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔ پچھلے کچھ عرصہ سے سعودی عرب میں بھی فرقہ وارانہ حالات پیدا کرنے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہے۔ مختلف اوقات میں خود کش حملے کئے گئے ہیں جن میں بیسیوں بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ سعودی عرب اندرونی دہشت گردی پر قابو پائے۔
ان دنوں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جہلم کے قریب جو مشقیں شروع ہوئی ہیں ان کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے ہیں۔ ان مشقوں کے ان شاء اللہ دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان نے اللہ کے فضل و کرم سے آپریشن ضرب عضب میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ اس لئے پاکستان کو چاہیے کہ وہ محسن ملک سعودی عرب کا اس حوالہ سے کھل کر ساتھ دے تاکہ وہ بھی دہشت گردی کا خاتمہ کر سکیں۔سعودی عرب کے ہم پر بہت زیادہ احسانات ہیں ۔ مشکل کی اس گھڑی میں کہ جب اسے ایک طرف یمن میں حوثیوں کی بغاوت اور دوسری جانب اندرونی سازشوں کا خطرہ درپیش ہے ہمیں ان کی کھل کر مدد کرنی چاہیے۔یہ ہماراشرعی فریضہ ہے جس سے کسی صورت پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔