تحریر: حافظ محمد فیصل خالد
امریکہ اور طالبان کے درمیان قندوز کی لڑائی فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد امریکہ مغلوب ہو چکا ہے اور اپنے پیچھے بارہ ہزار فوجی چھوڑے جارہا ہے جو کہ پانچ فضائی اڈوں سے کاروائیاں کر کے کابل کے حکمرانوں( جنکی حکومت افغانستان کے شہری علاقوں تک محدود ہو چکی ہے )کی مدد کر یں گے۔ جبکہ ایک محدود اندازے کے مطابق طالبان کو ملک کے ٠٨ فیصد دیہی علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے ۔ اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ قندوز کی جنگ متحار ب قو توں کی جنگی حکمتِ عملی کی کامیابی و ناکامی کا اصل امتحان ہے۔امریکی حکمتِ عملی تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔ جسکی سب سے بری دلیل اقوام متحدہ کے اجلاس میں صدر اوباما کا اعترافِ شکست ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ عسکری طاقت اور سرمایا جنگوں میں کامیابی کا ضامن نہیں ہوا کرتا ۔ دوسری جانب طالبان ہیں جو اپنی پہلے سے وضع شدہ حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔
طالبان نے اپنے جنگی ٹھکانے تبدیل کر کے اپنی مزاحمتی قوت کا مر کز شمال کی جانب منتقل کر لیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بدخشاں، تخار، فرہاب، زابل ،بغلان، جوزجاں، بادغیس اور قندوز کے صوبوں میں انکے نئے امدادی کیمپ قائم ہو چکے ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ انکی جنگی طاقت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ازبکستان کی تحریک آزادی ایم۔ آئی۔ یو ۔ تاجکستان، ترکمانستان اور سنکیانگ کے مجاہدین کے علاوہ اندرون ملک سے ازبک، تاجک مجاہدین بھی تسلسل ان کے ساتھ طالبان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں طالبان اب آہستہ آہستہ اندرونی علاقوں پر اپنا کنٹرول بڑہاتے جا رہے ہیں تاکہ دفاعی افواج کی نقل و حرکت محدود کی جا سکے۔ اور نقل وحرکت کی پابندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان نے چند ماہ قبل اپنے پانچ سو قیدیوں میں سے تین سو کو رہا کرا لیا۔
قیدیوں کی رہائی کے بعد اب انکا دوسرا بڑا ہدف بڑے شہروکو جانے والے اہم سپلائی راستوں کا کنٹرول حاصل کر نا ہے۔ او اب یہ لوگ تاجکستان کی سرحد پر واقع شیر خان کی خشک بندرگاہ پر قابض ہونے کیلئے کوشاں ہیںتاکہ افغانستان کیلئے سول اور عسکری امداد کی ترسیل روکی جا سکے۔اسی طراح سالانگ ٹنل اور کابل کو جانے والی شہراء بھی انکی زد میں ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے قندوز میں اسلحہ ، گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان کے بڑے ذخیرے پر قبضہ کر لیا۔ شیر خان کی خشک بندرگاہ سے حاصل ہونے والے پانچ سو ٹرکوں سے انہیں مزید عسکری ساز و سامان حاصل ہواجو کہ انکی طاقت بڑاہانے میں خاصہ مدد گار ثابت ہوگا۔
ماہرین کے مطابق مذکورہ بالا صورتِ حال خطے میںچند ممالک کے اتحاد کی طرف اشارہ دے رہی ہے۔ ان ممالک میں پاکستان، افغانستان، روس اور چائنہ کا ایک متحد گروہ بنتا نظر آرہا ہے جو کہ خطے میں خاصی اہمیت کا حامل ہو گا۔ جس کے نتیجے میں یقینا انڈیا اور اس کے اتحادیوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو یہ اتحاد کسی صورت بھی ہضم نہیں ہو رہا اور وہ اپنے شیطانی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے تاکہ کسی بھی صورت اس قسم کی گروہ بندی کو روکا جا سکے۔کیونکہ یہی ایک آپشن اس کی بقاء کی ضامن ہو سکتی ہے۔ اور اگر یہ اتحاد بن جاتا ہے تو پھر شاید ہندوستان کے پاس خطے میں اپنا تسلط قائم کرنے کا کوئی موقع نہیں بچے گا۔
اور یہی وجہ ہے کہ روس، چین، پاکستان ، اور افغانستان کے درمیان بڑہتا ہوا اتحاد پاکستان سے اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ بھی اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں با الخصوص پاکستان اور با العموم خطے کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر ے۔ کیونکہ ایسی سورتِ حال میں پاکستان کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
تحریر: حافظ محمد فیصل خالد