تحریر: انجینئر افتخار چودھری
ٹونی بلیئر کو معافی منگنے کی ضرورت ہی کیا ہے اسے کس کا ڈر ہے۔یورپ کاوہ معاشرہ جو کتے کی ٹانگ ٹوٹنے پر چیخ اٹھتا ہے وہ عراق میں قتل عام پر بھی سڑکوں پر آیا مگر دنیاوی خدائوں نے اپنے منشور پر عمل کیا۔کچھ بھی ہو تاریخ کے پنوں پر جارج بش ٹونی بلیئر کا نام مسلم کش کی حیثیت سے لکھا جائے گا۔یہ ہمارے بس کی بات نہیں کہ اس کا گریباں ہاتھ میں لے کر پوچھ سکیں کہ مسٹر بلیئر یہ تم نے کیا کیا؟سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا کہنا تھا کہ میں نے عراق پر حملہ کر کے زیادتی کی اور جی چاہتا ہے اپنی اس غلطی پر معافی مانگوں۔
اسے کہتے ہیں کہہ مکرنیاں ہمارے ایک معتبر صحافی جناب طلعت حسین نے اس پر قلم بھی اٹھایا ہے اور برطانوی وزیر اعظم کی اس ہمالائی غلطی کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ان کے کالموں کو ایک عرصے سے پڑھتا ہوں ان کے تمام خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں خاص طور پر دھرنائی ایام میں وہ جب اپنا سارا وزن میاں صاحب کی جانب ڈال دیتے تھے تو ہم بھی جواب آں غزل اپنی تحریر لکھ دیتے تھے۔ان کے کالم کے جواب میں ایک بار لکھا اور میں نے جان بوجھ کر ان کی ویب سائیٹ پر نہیں بھیجا انہیں جب علم ہوا تو جناب نثار اور عزیزم جہانزیب منہاس جو مدینہ منورہ میں سچ کے نمائیدے تھے ان کے ذریعے کالم منگوا کر پوسٹ کیا۔
ہماری بدقسمتی اور چھوٹے قد کے ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم جو کسی زمانے میں اسلامی دنیا کے دکھوں پر چیخ اٹھتے تھے کشمیر فلسطین برما روس چائینہ غرض جہاں جہاں مسلمان پریشان تھے ان کے لئے آواز بلند کرتے۔ہمیں تو جب اپنے آپ کو ماضی کے آئینہ خانے میں جانے کا موقع ملا تو حیران رہ گئے کہ کیا ہم اسی پاکستان کے باشندے ہیں جس نے چالیس لاکھ مسلمانوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔افغانیوں کو اپنے پاسپورٹ دیے آج ہر کوئی ہماری اس حکمت عملی کو ہماری غلطی قرار دیتا ہے اس میں دائیں بائیں کے سب لوگ شامل ہیں۔یہ تو روس کے ٹوٹنے کے بعد اور دریائے آمو کے پل سے جب آخری روسی فوجی چلا گیا تو ایک عرصے بعد لوگوں کو خیال آیا کہ وہ ہماری غلطی تھی۔اس نسل کو کوئی نہیں بتاتا کہ روس نے ہمارے بڈ بھیر اڈے پر سرخ نشان لگا رکھا تھا اس نے گرم پانیوں تک رسائی کے پلان بنا رکھے تھے۔تاریخ کا یہ بھی سچ کوئی اس نسل کو کوئی نہیں بتاتا کہ روس تو افغانستان میں ١٩٧٩ میں آیا اور امریکہ نے اس مسئلے میں دو سال گزرنے کے بعد ہاتھ ڈالا۔
یہ جنرل ضیائالحق ہی تھے جنہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ ویت نام کی شکست کا بدلا لیا جا سکتا ہے۔اور یہ بھی پاکستان کی نسل کو کوئی نہیں بتاتا کہ امریکی زمینی لڑائی نہیں لڑ سکتے وہ ہوا سے تڑاخ تڑاخ تو کر سکتے ہیں مگر گوریلا لڑائی لڑنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔یہی ہتھیار ہماری مایہ ناز آئی ایس آئی اور پاکستان کی بہادر فوج نے اس وقت آزمائے ۔جنرل اختر عبدالرحمن نے جنرل ضیاء الحق کو بریفینگ دیتے ہوئے یہ تاریخی کلمات کہے تھے کہ ریچھ غار میں گر گیا ہے اب اسے زخمی کر کے مارا جائے گا۔تاریخ کے اس پہلو پر برادر روف طاہر اگر مدح رائے ونڈ سے فرصت ملے تو ضرور لکھیں تا کہ جو راز ان کے سینے میں ہیں لوگوں تک پہنچیں۔
سچ پوچھیں تو پاکستان کے صحافی اپنی الجھنوں میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ انہیں نوٹ سنبھالنے سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ قوم کو ان کی طاقت سے ہی آگاہ کر سکیں۔ فاروق جاوید ہمارے جدہ کے ساتھی کہا کرتے تھے کہ سانڈ کو اپنی طاقت کا ہی اندازہ نہیں اور وہ بے وقوفوں کی طرح شیر کے آگے بھاگنا شروع ہو جاتا ہے اگر رک کر مقابلہ کرے تو شیر کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دے۔اب اس سانڈ کو کس نے یاد کرانا ہے کہ آپ اس قوم کے فرد ہیں جس نے ہندو چانکیہ کے شاگردوں انگریزوں کانگریسی ملائوں کے منہ سے چھین کر آزادی حاصل کی ہے کم وسائل کے ہوتے ہوئے ٦٥ کی جنگ جیتی ہے اور انتہائی دگرگوں حالات میں ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے۔آپ اب بھی کپڑے جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں تو آپ کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔اس قوم نے ٢٠٠٥ کا زلزلہ بھی دیکھا ہے اور ثابٹ کیا ہے کہ یہ قوم ایک زندہ قوم ہے۔
اب میں آتا ہوں جناب ٹونی بلیئر کے اعتراف کی طرف۔دس لاکھ سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد عراق سے ٹریلین ڈالر کے سونے کے ذخائر اور تیل لے جانے کے بعد آپ کو یاد آیا کہ عراق پر حملہ کرنا ہماری غلطی تھی۔دنیا کی مادر جمہوریت کے چیمپئین سے پوچھتا ہوں کہ آپ اتنے بھولے نہ بنیں آپ کو سب کچھ پتہ تھا مگر آپ کو زمینی خدائوں نے بتایا کہ آپ کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا صرف عراق کی جنگ دے سکتی ہے۔امریکہ میں بند ہوتی ہوئی اسلحے کی فیکٹریاں خیلجی جنگ سے چلیں اور عراق سے لوٹی ہوئی دولت سے یورپیں امریکن مارکیٹوں کی رونق بحال ہوئیں۔سچ ہے کیا؟سچ وہ ہے جو ان ممالک کی مصلحت پر پورا اترتا ہے۔جناب ٹونی بلیئر سب کچھ ہڑپ کرنے کے بعد تائسف کا اظہار کافی نہیں ہے۔بد قسمتی سے عرب اور اسلامی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے آپ نے دنیا کی سامنے سب سے بڑا جھوٹ بولا۔ٹون ٹاورز گرائے جانے کا ڈرامہ رچایا آپ نے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے بیٹھ کر اس آپریشن کو انجام دینے کی بونگی دلیل دی۔دو ناکام بلڈنگوں کو گرا کر مسلمانوں کے متھے مار دیا اور اس کے بعد ہر اسلامی ملک کی پھٹیاں اکھیڑ کر رکھ دیں۔سب کچھ ملبے اور راکھ میں بدل گیا سوائے سعودی عرب کے غامدیوں کے پاسپورٹوں کے۔
اب حالت یہ ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اس قابل نہیں ہے کہ وہ سچ کی تلاش کے سفر پر نکلے۔اس میں پاکستان بھی شامل ہو گیا ہے۔اب حالت یہ ہے کہ کنڈولینا رائس تا دیر مطالبہ کرتی رہی پاکستان اپنے شمالی علاقوں میں آپریشن کرے ایک بار تو امریکہ نے کہا کہ وہ خود آپریشن کرے گا مگر اس وقت کے سپہ سالار نے کہا کہ امریکہ بتائے کہ وہ اپنے فوجیوں کو کہاں مروانا چاہتا ہے؟چھوڑیں اس بات کو بات کہیں اور نکل جائے گی؟لیکن اس وقت اسلامی دنیا میں ہے کوئی جو امریکنو اور برطانیہ کے ان مجرموں سے پوچھے کہ اگر عراق کے پاس ماس ڈیسٹریکشن کے ہتھیار نہیں تھے تو تم نے عراق کا یہ حشر کیوں کیا ہے؟کیا وہ گلطی تھی یا ڈاکہ تھا۔آج مشرق وسطی میں سعودی عرب کے لالے پڑے ہوئے ہیں عراق میں مسلمانوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کے اثرات سعودی عرب کے بارڈر پر واقع ملک یمن اور ادھر پاکستان میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔
معاف کرنا پاکستان اب اگر کوئی کہے کہ کسی بھی وقت متحد ہو گا تو یہ خیال خام ہو گا اس لئے کہ ہم اب مسلمان نہیں شیعہ اور سنی کی حیثیت سے تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں۔مجھے دلی طور پر دکھ ہے کہ وہ ملک جو ماضی میں ایک شیر ملک تھا اب تفریق کا نشانہ بنا دیا گیا ہے۔ٹونی بلیئر کو معافی منگنے کی ضرورت ہی کیا ہے اسے کس کا ڈر ہے۔یورپ کاوہ معاشرہ جو کتے کی ٹانگ ٹوٹنے پر چیخ اٹھتا ہے وہ عراق میں قتل عام پر بھی سڑکوں پر آیا مگر دنیاوی خدائوں نے اپنے منشور پر عمل کیا۔کچھ بھی ہو تاریخ کے پنوں پر جارج بش ٹونی بلیئر کا نام مسلم کش کی حیثیت سے لکھا جائے گا۔یہ ہمارے بس کی بات نہیں کہ اس کا گریباں ہاتھ میں لے کر پوچھ سکیں کہ مسٹر بلیئر یہ تم نے کیا کیا؟
تحریر: انجینئر افتخار چودھری