تحریر: حبیب اللہ سلفی
پاکستان اور سعودی عرب کی افواج کی جہلم کے قریب پبی میں واقع ”انسداددہشت گردی کے قومی مرکز” میں جاری مشترکہ فوجی مشقیں اختتام پذیر ہو گئی ہیں۔ ”الشہاب ون” نامی یہ مشقیں بارہ روز تک جاری رہیں جس میں سعودی اسپیشل فورس کے 57رکنی دستہ نے شرکت کی۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مختلف شعبوںمیں دفاعی تعاون نئی بات نہیں ہے تاہم دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالہ سے کی جانے والی ان مشقوں کی موجودہ حالات میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔الشہاب ون نامی مشقوں کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کی سپیشل آپریشنل فورسز نے انسداد دہشت گردی کی تربیت پر توجہ مرکوز رکھی جس میں گھیرائو کر کے تلاشی کے آپریشنز، ایئر ڈراپنگ اور ہیلی لفٹنگ کی تربیت وغیرہ شامل تھی جس کا مقصد دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیوں کو موثر بنانا ہے۔
سعودی سپیشل فورسز کے کمانڈر جنرل مفلح بن سلیم کی قیادت میں سعودی عرب کے چھ رکنی اعلیٰ سطحی وفد نے بھی مشقوں کی اختتامی تقریب میں شرکت کی۔جہلم کے قریب واقع لہری رینج میں پاکستان اور سعودی عرب کی بری افواج کی مشترکہ فوجی مشقیںپچھلے کئی سال سے ہوتی آرہی ہیںجن سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک تعلقات کو فروغ ملاہے۔2011ء میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے” الصمصام” نام سے کی جانے والی ان مشقوں کا معائنہ کیا جس میں کسی ایک علاقے سے انتہاپسندوں کے خاتمہ کا عملی نمونہ پیش کیا گیااور کمانڈوز نے فضاء سے اترنے کاعملی مظاہرہ کیا ۔ اس دوران مشقوں میں شریک کمانڈوز کو لڑاکا جنگی جہازوں اور کوبراہیلی کاپٹروں کی بھی معاونت حاصل رہی۔ چار سال قبل ہونے والی ان مشقوں کے کامیاب انعقاد پر سعودی بری افواج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل خالد بن عبدالعزیز السعود نے آئندہ مشقیں سعودی سرزمین پر کرنے کا اعلان کیا۔
گذشتہ برس بھی جہلم کے قریب ہی یہ مشقیں ہوئیں اور رواں برس مارچ میں سعودی عرب کی سرزمین پر بھی ”الصمصام پنجم” کے نام سے مشترکہ فوجی مشقیں کی گئیں جن میں تین سو کے قریب پاکستانی فوجیوں نے حصہ لیا۔جن دنوں یہ مشقیں جاری تھیں انہی دنوں یمن پر حوثی باغیوں کے قبضہ کا بھی مسئلہ درپیش تھاجس پر یہ شور بھی برپا کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان نے سعودی عرب کی یمن میں جاری کارروائی میں مدد کیلئے فوج بھیجنے کا حتمی فیصلہ کر لیاہے ۔ بعد ازاں یہ خیریں آنے پر پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ پاک فوج سعودی عرب میں مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لے رہی ہے جو ہر سال ہوتی ہیں اور یہ کوئی نئی مشقیں نہیں ہیں۔
سعودی عرب کی طرح حال ہی میں پاکستان اور ترک فضائیہ کی بھی مشترکہ مشقیں ہوئی ہیں جس میں ترک فضائیہ کے ایک دستے، پانچ ایف سولہ طیاروں، ہوابازوں اور تکنیکی عملہ کے اراکین نے شرکت کی۔5 سے 17 اکتوبر تک جاری رہنے والی ان فضائی مشقوں میں ترک فضائیہ کی مشہور و معرف ائیروبیٹکس ٹیم نے بھی حصہ لیا۔ ان مشقوں کا بنیادی مقصد اپنی فضائی جنگی صلاحیت اور مستقبل کے کسی بھی خطرے کیلئے فضائی جنگی قوت کے استعمال کو بہتر کرنا تھا۔ پاک فضائیہ کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنے فضائی اور زمینی عملے کی جنگی تربیت کیلئے دوسرے ممالک کی فضائی افواج کے اشتراک سے جنگی مشقوں کا انعقاد کرتی رہتی ہے تاکہ پاک فضائیہ کے عملے کی جنگی صلاحیتوں کو بڑھایا جاسکے۔ پاک فضائیہ اب تک چین کی پیپلز لبریشن آرمی ایئرفورس، ترک فضائیہ، اٹالین اور امریکن فضائیہ کے ساتھ کئی عالمی فضائی مشقوں میں حصہ لے چکی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سعودی عرب اور ترکی کی افواج کے ساتھ مشترکہ مشقوں کا سلسلہ خوش آئند ہے۔
خاص طور پر ان حالات میں کہ جب مسلم ملکوں میں فتنہ تکفیر پھیلا کر اندرونی شورشیں بپاکی جارہی ہیں اور داعش جیسی تنظیمیں پروان چڑھا کر خودکش حملوں، تخریب کاری ودہشت گردی کو پروان چڑھایا جارہا ہے ‘ مسلمان ملکوں کی افواج کا باہمی تعاون اور دہشت گردی کچلنے کیلئے مشترکہ کوششیں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ پاکستان نائن الیون کے بعد سے خاص طور پر دہشت گردی کا نشانہ بناہے۔ یہاں ایسے گروہوں کی سرپرستی کی گئی جنہوںنے پاک فوج، ایئرفورس، بحریہ، رینجرز، حکومتی ذمہ داران اور پبلک مقامات پر بم دھماکوں و خودکش حملوں کوجائز قرار دیا اورا پنے ان مذموم مقاصد کیلئے انڈیا و امریکہ سے مدد لینے کو بھی باعث عار نہیں سمجھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے ملک میں یہ آگ پھیل گئی اور پچھلے چند برسوں میں پاکستانی افواج اور قومی سلامتی کے اداروں کو اس قدر زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جنگوں میں بھی اتنا نقصان نہیں پہنچا ہوگا۔
پاک فوج اور پاکستانی قوم نے اس حوالہ سے بے پناہ قربانیاں پیش کی ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ افواج پاکستان کو جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شروع کئے جانے والے آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردی کچلنے کیلئے زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ ملک سے بھارت، امریکہ اور اتحادی ممالک کی ایجنسیوں کے پھیلائے ہوئے نیٹ ورک بکھر چکے ہیںاورعلیحدگی کی وہ تمام تحریکیں دم توڑ چکی ہیں جو بیرونی ایجنسیوں سے سرمایہ لیکر وطن عزیز پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھیں۔ پاکستان کی طرح دیگر مسلم ملکوں میں بھی دہشت گردی کی یہی صورتحال پیداکی گئی ہے اور سعودی عرب جو امت مسلمہ کا روحانی مرکزہے’ اسے خاص طور پر تخریب کاری ودہشت گردی کا نشانہ بنانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ یمن پر حوثی باغیوں کا قبضہ، حرمین شریفین پر قبضہ کی دھمکیاں اورسعودی سرزمین پر خودکش حملوں کو ہوا دینا اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔حالیہ مہینوں میں برادر اسلامی ملک میں متعدد خودکش حملے ہوئے ہیںاور شیعہ مسلک کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی گئی۔ سعودی عرب میں ہونیو الے حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور آئندہ بھی ایسے حملے جاری رکھنے کے ناپاک عزائم کا اعلان کیا گیا۔
ایسی صورتحال میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک دوسرے سے تعان بہت ضروری ہے۔ پاکستان نے اللہ کے فضل و کرم سے دہشت گردوں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔سعودی حکام نے اگر پاکستانی سپیشل فورسز کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ مسلم امہ کے دل کی آواز ہے اور پاکستان ان شاء اللہ مسلمانوں کے محسن ملک سعودی عرب کے ساتھ ہر قسم کاتعاون جاری رکھے گا۔ جہلم کے قریب ہونے والی دونوں ملکوں کی فوجی مشقوں کے آخری دن پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی اور واضح طو رپر اس امر کا اظہا رکیا کہ سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ دونوں ملکوں کے تاریخی او ربرادرانہ تعلقات ہیں ۔ہم ملکر ہر قسم کی دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ پاکستان سعودی عرب کے جغرافیائی اور نظریاتی نظریے کے ساتھ کھڑا ہے۔ آرمی چیف کے اس جرأتمندانہ بیان سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ دشمنان اسلام متحد ہو کرفلسطین، کشمیراور شام میںبے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والوں کی مکمل پشت پناہی کر رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلمان ملکوں کے ذمہ داران بھی بیرونی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اورداعش جیسی تنظیموں کے خلاف مشترکہ طور پر کارروائیاں کی جائیں تاکہ امت مسلمہ کو اس فتنہ سے بچایا جا سکے۔
فتنہ تکفیر کے خاتمہ کیلئے نظریاتی بنیادوں پر بھی بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلہ میں علماء کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین کوبخوبی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔آخر میں ہم ترکی کواس کے 92ویں قومی دن کے موقع پرمبارکباد پیش کرتے ہیں۔ پاکستان اور ترکی کے مابین گہرے اور تاریخی تعلقات ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان میں جب کبھی کوئی قدرتی آفت آئی ترکی نے ہمیشہ سعودی عرب کی طرح پاکستان کاکھل کر ساتھ دیاہے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ مسلم ملکوں کے مابین محبتوں کے یہ سلسلے برقرار رکھے اور سب کو مل کر دہشت گردی کچلنے کی کوششوں میں کامیابیاں عطا فرمائے۔امین۔
تحریر: حبیب اللہ سلفی
برائے رابطہ: 0321-4289005