تحریر: نجیم شاہ
مردار پڑے گدھے سے تھوڑا فاصلے پر اُداس بیٹھے عزیر سے دوستوں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اُس نے روتے ہوئے کہا جس گدھے پر میں آپ لوگوں کے ساتھ ہمسفر بن کر جنگل سے لکڑیاں لایا کرتا تھا وہ مر چکا ہے۔ دوست تسلی دینے لگے تو عزیر نے زور زور سے ہچکیاں لینا شروع کر دیں اور کہا ایک تو میرا گدھا مر گیا اوپر سے اُسے نوچنے کیلئے چیلیں اور گِدھ بھی اُمڈ آئے ہیں۔
آخر کار منصوبہ یہ بنا کہ مرحوم گدھے کے گرد منڈلانے والے گِدھ اور چیلیں بھگا کر اُسے کسی محفوظ جگہ پر دفن کرتے ہیں، اور پھر ایسا ہی ہوا ،گدھے کو قریبی کھیت میں دفن کر دیا گیا۔ عزیر کا والد شہر سے باہر تھا۔ بیٹے کو ڈر تھا کہ والد کے واپس آنے پر اگر یہ راز فاش ہو گیا کہ گدھا اِس کھودی ہوئی زمین کے نیچے دفن ہے تو خیر نہ ہو گی ،لہٰذا دوستوں کے ساتھ مل کر آس پاس کا پورا کھیت بھی کھود ڈالا۔ والد واپس آیا تو کھودا ہوا کھیت دیکھ کر نہایت خوش ہوا، اور وہاں مولیوں کا بیج بو دیا۔
جب مولیاں اُگ آئیں تو عجیب صورتحال دیکھنے کو ملی یعنی عین اُس جگہ جہاں گدھا دفن تھا اُگنے والی ہر مولی کئی کلو وزنی تھی۔ قریبی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے آدھی چھٹی کے وقت باورچی کو حکم دیا کہ وہ بابا جی کے کھیتوں سے مولیاں توڑ لائے۔ بابا جی خود بھی سکول میں چوکیدار کی پوسٹ پر ملازم تھے، اِس لیے بابا جی کے کھیت کی مولیاں اُساتذہ اپنے لیے حلال سمجھتے تھے، مگر انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ کھیت کے جس حصے کی مولیاں وہ کھا رہے ہیں اس کے نیچے تو گدھا دفن ہے۔ باورچی نے کھانے کے ساتھ مولیاں بطورِ سلاد پیش کیں۔
اُساتذہ جب سیر ہو کر کھانا کھا چکے تو تھوڑی ہی دیر بعد کسی معمولی سی بات پر جھگڑ پڑے اور ایک دوسرے پر لاتوں، مکوں کے آزادانہ استعمال کے ساتھ ساتھ ڈھینچوں ڈھینچوں کی آوازیں بھی دینے لگے۔ لڑائی سے بھرپور منظر دیکھ کر طلباء حیران رہ گئے کہ وہ انسان بننے کیلئے اسکول میں داخل ہوئے تھے مگر یہاں تو اُن کا خود گدھوں سے واسطہ پڑ چکا ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مردار جانوروں کو انسانوں کی بجائے چیلیں، گِدھ، کوے اور لگڑ بگڑ وغیرہ کھایا کرتے تھے۔ کاکا شرارتی کا خیال ہے کہ گدھے کا گوشت کھانے والوں میں خرمستیوں کا رحجان بڑھ جاتا ہے اور اگر یہ لوگ کاہل اور کام چور ہوں تو گدھے کی طرح کام کرنے لگتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک غیر ملکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ چین، ترکی، سعودی عرب، کویت اور جنوبی کوریا کے باشندے 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد سے مظفر آباد کی تعمیر نو میں مصروف ہیں۔ اخبار نے حکام کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت تین ہزار چینی اور تین سو کوریائی باشندے مظفر آباد اور اس کے نواح میں مقیم ہیں اور یہ لوگ بجلی پیدا کرنے کے مختلف منصوبوں پر کام رہے ہیں۔ اس پوری خبر میں دلچسپ پہلو یہ تھا کہ اِن چینی اور کوریائی باشندوں کی وجہ سے علاقے میں کتوں کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے۔ چینی باشندے کتوں اور گدھوں کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ چین میں ہر سال جہاں کتاخوری کا سالانہ میلہ سجتا ہے ،وہیں وہ ہر نئے چینی سال کی خوشی میں اپنے سامنے گدھوں کو ہلاک کروا کر گوشت خریدتے ہیں اور لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ گدھے کا تازہ گوشت عزیزوں اور دوستوں کے لیے تحفے کے طور پر بھی لے کر جائیں۔
چین پاکستان کا بہت ہی گہرا دوست ہے۔ اسی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ہم نے بھی اپنے ہاں گدھوں اور کتوں وغیرہ کے گوشت کی فروخت شروع کر دی ہے۔ سُنا ہے آج کل گِدھ اور چیلیں ناپید ہو گئی ہیں۔ کیوں نہ ہوں، پہلے مرداروں کو نوچ نوچ کر کھانے کے لئے گِدھ اور چیلیں ہوا کرتی تھیں، پھر ان بیچارے پرندوں نے دیکھا کہ یہاں تو مردار کھانے والے بہت ہیں ان کا حصہ تو بچتا ہی نہیں۔ ہر کوئی تو زندہ، مردہ، حرام، مکروہ سب کچھ کھا رہا ہے سو انہوں نے کوچ کرلی، دور بہت دور جہاں کم از کم کھانے کو تو کچھ ملے۔ یہاں سب کچھ مردار ہے، بس حلال کا نعرہ لگانے والے وہی رہ گئے ہیں جن کو شاید مردار کھانے کو نہیں ملتا۔ ہمارے اندر کے گِدھ نے باہر کے گِدھ کا بھی حق مارا ہے۔ اب لوگ جو بھی جانور مرتا ہے خواہ وہ گدھا ہی کیوں نہ ہو کاٹ کر بیچ دیتے ہیں پھر چیلیں، کوئے، گِدھ اور لگڑ بگڑ یہاں کیا کریں؟ اخبارات میں حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت بارے پڑھ کر میں سوچنے لگا کہ اگر واقعی ہمارے معاشرے میں مردار گوشت ہی لوگوں کو کھلایا جا رہا ہے تو جانے ہمارے عوام پر اس گوشت کے کیسے کیسے اثرات ظاہر ہو رہے ہوں گے۔
بات صرف گدھوںتک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو کتے، گھوڑے اور خنزیر کے گوشت کی فروخت بھی سرعام میڈیا میں آ چکی ہے۔ ظاہر ہے کتے اور خنزیر کھانے والوں پر گدھوں کی طرح دولتیاں مارنے کے اثرات تو مرتب نہیں ہو سکتے۔ دن کا تھکا ہارا رات کو فرصت کے لمحات میں جیسے ہی ریموٹ لے کر ٹی وی آن کیا ،ٹاک شو میں موجود سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر غرغراتے نظر آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے اور شاید چند ہی لمحوں میں ایک دوسرے کو کاٹنے والے ہیں۔ یہ بات تو کسی حد تک سمجھ آ ہی گئی ہے کہ گدھے کا گوشت کھانے والے دولتیاں مارنے کے ساتھ ساتھ گدھوں کی طرح کام بھی کرتے ہیں، مگر جنہوں نے حلال کے بجائے حرام یعنی کتے اور خنزیر وغیرہ کا گوشت کھایا ہو اُن کی پہچان کیسے کی جائے؟ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
تحریر: نجیم شاہ