تحریر: عارف محمود کسانہ
علامہ نے اپنی شاعری میں عمل کا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے اپنے خطبات میں واضع کیا کہ اسلام کا نظریہ متحرک ہے جامد نہیں۔ نوجوانوں کو بطور خاص مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے پیغام عمل دیا اور انہیں نوجوان نسل سے یہ توقع تھی کہ وہ کردار و عمل کی قوت سے امت مسلمہ کو ایک پھر اقوام عالم میں قابل فخر مقام دلا سکیں گے۔
عمل کی اہمیت کو خالق کائنات نے اصولی طور پر بیان کر دیا کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کے لئے وہ خود کوشش کرتا ہے۔ علامہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جس قوم کا دین کا یہ نظریہ تھا آج وہ نہ صرف عمل سے عاری ہوچکی بلکہ اُس نے اپنے زندگی کے نظریہ کو بھی بدل لیا ہے اور اس بات پر مطمئن ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہی ہوتا ہے اس لیے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس بارے میں وہ فرماتے ہیں۔
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی؟ عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ ایران کے فتح کے بعد جن عجمی اثرات نے اسلام کی تعلیمات کی اصل روح کو متاثر کیا وہ یہی تقدیر کا مسئلہ تھا جس نے مسلمان قوم کو بے عمل کردیا۔ اسی لیے علامہ کے خیال میں ایران کی فتح سے اسلام کو نقصان پہنچا۔تقدیر اشیائے کائنات کے لیے خدا کے بنائے ہوئے قوانین ہیں جبکہ انسان کو اللہ نے عمل میں آزاد رکھا ہے اسی اختیار کے باعث انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے ۔ علامہ نے انسان پر اس حقیقت کو واضع کرتے ہوئے کہا کہ
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں
انہوں نے اپنے کلام اور خطبات کے ذریعہ اس خطرے کو نہ صرف اضاگر کیا بلکہ بار بار عمل کا درس دیا۔ اس ضمن میں اپنے خطبات میں وہ لکھتے ہیں کہ یہ کائنات ارتقا پذیر ہے اور خالق کائنات اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز متحرک ہے اور اسی طرح زندگی بھی ایک جوئے رواں ہے۔ جب کائنات کی ہر شئے مصروف عمل ہے تو پھر انسان کیسے بے عمل رہ سکتا ہے۔ اسی لیے وہ فرماتے ہیں کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
چاند اور تارے نظم میں انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں تاروں کا چاند سے مکالمہ بیاں کیا ہے کس میں تارے مسلسل گردش سے گھبرا کا چاند سے پوچھتے ہیں کہ
نظارے رہے وہی فلک پر ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
ہوگا کبھی ختم یہ سفر کیا منزل کبھی آئے گی نظر کیا
اس پر وہ بزبان چاند کیا خوب جواب دیتے ہیں کہ
کہنے لگا چاند ، ہم نشینو اے مزرع شب کے خوشہ چینو
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
ملنا اور بچھڑنا بھی زندگی کا ایک پہلو ہے جسے علامہ نے اپنی نظم دو ستارے میں اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ
گردش تاروں کا ہے مقدر ہر ایک کی راہ ہے مقرر
ہے خواب ثبات آشنائی آئین جہاں کا ہے جدائی
علامہ نے اپنی شہرت آفاق نظم ساقی میں نامہ میں انہوں ے زندگی میں عمل کی اہمت اور کردار کو کس قدر دلنشین پیرائے میں بیان کیا ہے
دمادم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرّۂ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
قانون قدرت کی وضاحت کرتے ہوئے رب نے اصول بیان کردیا کہ کسی بھی محنت کرنے والے کی محنت ضائع نہیں ہوگی۔ یہ محنت کرنے والا چاہے کوئی ہو، اس کا مذہب، عقیدہ یا رنگ و نسل سے کوئی تعلق نہیں۔ محمد دین ہو یا شنتا رام، ڈیوڈ ہو یا محمود، ہر اک کو اس کے عمل کا نتیجہ ملے گا۔سنت اللہ یہی ہے کہ جیسا کرو ویسا بھرو گے۔اسی کی تشریح اس روایت میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے بیان کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ایسے پتھر کے اندر بیٹھ کر جس میں ایک سوراخ بھی نہ ہو، کوئی عمل کرے گا تو وہ لوگوں پر ظاہر ہو کر رہے گا خواہ عمل اچھا ہو یا برا۔ حضرت ابو ہرہرہؓ سے روایت ہے کہ جس شخص نے عمل میں کوتاہی کی تو (آخرت میں) اس کا نسب کام نہ آئے گا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ ہلاک ہوگیا وہ شخص جس کا آج، کل سے بہتر نہیں۔ ترقی یافتہ اقوام اپنے عمل کی بنا پرآج سر خرو ہیں جبکہ پستی کا شکار اقوام کو اپنی بے عملی کو کوسنا چاہیے۔ جب وسیع کائنات میں پھیلے میں اربوں تارے ہر وقت گردش میں ہیں اور کوئی چیز ساکن نہیں تو انسان جو مسجود ملائکہ ہے اور خلاق کائنات کی اس زمین پر اشر ف المخلوقات ہے تو وہ کیسے بے عمل رہ سکتی ہے۔ اسی پیغام کو طلبہ علی گڑھ کے نام بھی علامہ نے عمل اور جدوجہد کا پیغام دیا ۔وہ فرماتے ہیں کہ
آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
ؑ عمل پیغام فکر اقبال کی روح ہے ۔ جو بھی علامہ کے پیغام کو سمجھتا ہے اُس میں عمل و کرادر کی روح بیدار ہوجاتی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو عمل کا پیغام دیا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے شاہین کی علامت کو اختیار کیا۔ خضر راہ میں انہوں نے مصروف عمل رہنے کو زندگی کا راز اور اصل پیغام قرار دیا ہے ۔ انحطاط اور پستی سے عروج کا سفر صرف عمل سے ہی ممکن ہے۔
پختہ تر ہے گردش پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اَے بے خبر رازِ دوامِ زندگی اقبال جس مرد مومن اور انسان کاتصور دیتے ہیں اور اس میں مستی کردار دیکھنا چاہتے ہیں وہ مسلسل جدوجہد اور عمل سے ہی ممکن ہے۔پیغام عمل کے ضمن میں علامہ کے سارے پیغام کا نچوڑ اُن کے اس شعر میں ہے جس میں انہوں نے عملی زندگی میں کامیابی کا نسخہ ان تین عناصر کوقرار دیا ہے۔
یقینِ محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
تحریر: عارف محمود کسانہ