تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
دنیا بھر میں ہر سال 15 نومبر انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام اس دن کو منانے کیلئے تمباکو نوشی کی تمام اقسام سے چوبیس گھنٹے کیلئے علامتی طور پر اجتناب کیا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو یہ پیغام دینا کہ سگریٹ نوشی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور مختلف بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تمباکو نوشی کا استعمال کرنے والے افراد کی مجموعی تعداد ایک ارب سے زائد ہے۔ یعنی ہر پانچواں فرد سگریٹ نوش ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباً 60لاکھ افراد اس شوق کی نذر ہو جاتے ہیں۔دو کروڑ افراد سالانہ 20ارب روپے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں۔پاکستان میں ہر تیسرا شخص سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلا ہے، ہمارے ملک میں ایسے بھی ہیں، جن کے پاس تین وقت کا کھانا کھانے کی اسطاعت نہیں ہوتی ،لیکن وہ سگریٹ ضرور پیتے ہیں، ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان کی 16فیصد خواتین تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ سگریٹ نوشی منشیات میں سب سے سستی ،آسانی سے دستیاب ،ہونے والا نشہ ہے ۔اورسب سے بڑی بات اسے قابل سزا نشہ نہیں سمجھا جاتا جیسے شراب ،افیون،ہیروئن ،چرس، وغیرہ کی قانونی طور پر ممانت ہے، ان کا استعمال ،بیچنا جرم سمجھا جاتا ہے ۔سگریٹ قانونََ جرم نہیں ہے۔
وزارت صحت کی صرف اتنی سی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سگریٹ کی ڈبی پر یہ تحریر کروا دیتی ہے ” تمباکو نوشی مضر صحت ہے، اس کا انجام منہ کا کینسر ہے ” اس کے بعد وزارت صحت کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ شراب کی بوتل پر ،چرس و ہیروئن کے پیکٹ پر ایسی ہی تحریر کا لیبل لگا دیا جائے ۔تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ نو فیصد سرطان کی وجہ تمباکو نوشی ہے۔
سگریٹ نوشی کے بے شمار نقصانات ہیں ،جن سے سگریٹ پینے والے بھی آگاہ ہیں ۔مثلا َبھوک کا گھٹنا، تھکاوٹ کا بڑھنا،دماغی صلاحیتوں کا منشر ہونا،سانس آلودہ ہونا،چہرہ پھیکا ،دانت و ہونٹ کاسیاہ ہوجانا ۔ڈپریشن،السر،جگر ،پھیپھٹرے ،گلے اور جبڑے کا کینسر،دل کے دورے ،بلڈپریشر جیسی بیماریوں اورتنگ دستی ،بے روزگاری اور افلاس و محتاجی ،سماجی و معاشرتی انتشار و بد نظمی ،وغیرہ سگریٹ نوشی قوت ارادی کو ختم کر دیتی ہے۔
ہم سگریٹ کے عادی کیوں ہو جاتے ہیں ۔بڑی وجہ تجسس ہے ،پھر ،فلمی ستاروں اور اشتہارات کے دلفریب نظارے،بہت سی غلط فہمیاں مثلا غم کو بھلانے کے لیے وہ غم جاناں ہو یا غم جہاں سگریٹ پینا شروع کی جاتی ہے ۔بیشتر سگریٹ نوش اسے تناؤ میں کمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔سگریٹ میں موجود نکوٹین انسان کے اعصاب پراس طرح سوار ہوتی ہے کہ وہ سگریٹ پئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک کمزور قوت ارادی کاحامل شخص کوشش کے باوجود بھی اس عادت کو ترک نہیں کر پاتا۔
سگریٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا بتایا جاتا ہے ،میں اس بارے میں یہ بات پورے یقین سے کہ رہا ہوں کہ کیا آپ حقیقت میں سگریٹ چھوڑنا چاہتے ہیں ۔دراصل ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔اگر ہم فیصلہ کر لیں تو ترک سگریٹ نوشی مشکل نہیں ہے ۔زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں جو سگریٹ نہیں پیتے ،خود کو مصروف کریں ،ہاتھوں میں تسبیح یا ڈائری ،منہ میں سوئف یا الائچی رکھ سکتے ہیں اور دل میں ذکر الہی جاری کر لیں ،ہر وقت یاحیی یا قیوم کا ورد کریں۔
جب سگریٹ کی طلب ہو تو خود سے عہد کریں میں قوت ارادی کا مضبوط ہوں ،میرا فیصلہ ہے میں سگریٹ نہیں پیوں گا ۔اس کے ساتھ خود ترغیبی کے ذریعے خود کو ہی سگریٹ کے خلاف لیکچر دیں ۔مراقبہ ، یوگا اور پابندی سے ورزش کرنے سے سگریٹ نوشی سے نجات مل جاتی ہے کیونکہ نکوٹین کی طلب میں اس وقت کمی آجاتی ہے ،جب ورزش کی جا رہی ہوتی ہے ۔لیکن سب سے اہم آپ کی قوت ارادی ہی ہے ،آٹو سجیشن ہی ہے ۔خود کو سمجھانا ترغیب دینا اپنی صحت کے لیے ہے ۔خاندان کے لیے۔بچوں کے لیے ۔آپ نے خود فیصلہ کرنا ہے اور اس پر ڈٹ جانا ہے۔
کالم کے آخر میں حکومت و دیگر متعلقہ اداروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ تمباکو نوشی کی ممانعت کے 2002ء کے قانوں کے مطابق عوامی مقامات، عوامی ٹرانسپورٹ، عوامی انتظار گاہوں، ہسپتالوں اور دفاتر میں سگریٹ نوشی پر پابندی ہے اور خلاف ورزی کرنیوالے کو جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسے قانون کا کیا فائدہ جہاں قانون پر عمل نہیں ہوتا۔اگر حکومت اس قانون پر عمل یقینی بنائے تو کافی حد تک سگریٹ نوشی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال