تحریر : ع۔م بدر سرحدی
ہمارے ایک صحافی دانشور وسعت اللہ خان نے اپنا کالم ”افغانوں کی دیوانی ہنڈیا ”کے عنوان سے لکھا یہ سمجھ نہیں سکا کہ یہاں ہنڈیا سے کیا مراد ہے ،اصل میں جو لفظ وہ انڈیا ہے مگر غلطی سے ہنڈیا لکھا اور …..لکھتے ہیں ” ایک لوک افغان داستان کے مطابق خدا نے چھ دن میں کرہء ارض تخلیق کیا اور جو اینٹ پتھر گارا بچ گیا اُس سے افغانستا بنا دیا ….” مضمون میں پھیلے مندرجات سے قطع نظر یہاں میرا موضوع ، چھ دن میں خدا نے کائینات کی تخلیق ہے۔
خلیق کائینات سے متعلق مختلف گروہوں اور اقوام کے مختلف نظریات ہیں ،کائنات کی تخلیق سے متعلق چھ دن کا نظریہ فقط توریت میںملتا ہے، جب میںنے یہ پڑھا تو میری حس ِ جستجوکو مہمیز لگی اور میں نے اسرائیل کی تاریخ کھنگالنا شروع کی ، اسرائیل میں ایک وقت تھا جسے قاضیوں کا دور کہا جاتا ،ایک نبی ہوتا جو خدا کے احکام پہنچاتا ،حضرت سموئیل کے وقت اسرائیل کے بزرگوں نے سموئیل سے مطالبہ کیا کہ دیگر اقوام کی طرح تو بھی ہمارے لئے بادشاہ مقرر کر دے۔
یہ مطالبہ حضرت سموئیل کو ناگوار گذرا تو فورا ہی خدا نے اسے کہا تو کیوں اُن کے مطالبے پر پریشان انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری تحقیر کی ہے کیا میں اُن کا باشاہ نہیں ،مگر تو انہیں بتا دے کہ بادشاہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرے گا …..حضرت سموئیل نے خدا کے حکم کے مطابق ،١٠٥٠،قبل از مسیح میں بنیامین کے قبیلے سے ساؤل بن قیس کو مسح کرکے اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا ، اور پھر ،ایک ہزار گیارہ ق م ،میں خدا نے حضرت داؤد کو بادشاہ مقرر کیا۔
حضرت سلیمان بن حضرت داؤد کے بعد ٣ا٩،قبل مسیح میں بنی اسرائیل کی متحدہ سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی ایک سامریہ کہلایا اور دوسرا یہودیہ،یہیں سے یہودی اسطلاح نے جنم لیا جب کہ یہودی کوئی قوم نہیں حضرت یعقوب کے بارہ بیٹوں میں سے بڑے بیٹے کا نا م یہوداہ تھا اور یہ بھی بارہ قبائل میں سے ایک …٧٢٢،میں شاہ اسور تگلت پلاسروم نے اسرائیل کو فتح کرلیا اور بڑی تعداد میں اسرائیلی اسیر کر لئے گئے۔
اُس وقت کے مشہور شہر ،اسور، کل ہو،دُرشاروکن،نینواہ،ہاران،جو آج کے عرا ق،شام،ترکی،مصر سعودیہ عریبیہ،اردن، ایران کویت،لبنان وغیرہ تھے ،خاص بات جو میرے مضمون کا مرکزی نقط افغان لوک داستان میں چھ دن، اور اسرائیلیوںکے بعد تقریباً ٥٨٧ ،ق م،شاہ بابل نبو کد نضر نے یروشلیم کا محاصرہ کیا اور جنوبی حکومت یہودیہ کو فتح کر کے ہیکل کو تباہ کیا تمام مقدس اشیاء جو حضرت سلیمان نے رکھی تھیں لوٹ لیا،شاہ یہو یاکین کو اور ملک میں کاری گر اہل لوگوں کو جو ہزاروں کی تعداد میں تھے۔
اسیر کر کے بابل لے گیا، ٥٨٧ قبل مسیح تک اسرائیل کی دونوں حکومتیں گویا صفحہ ہستی مٹ چکی تھیں کہ انہوں واحد خدا کو جو انہیں بڑی قوت سے موسیٰ کی راہنمائی میں مصر سے نکال لایا کے احکامات کو رد کرتے ہوئے روحانی حرام کاری کے مرتکب ہوئے تو خدانے بھی انہیں چھوڑ دیا۔ ،اور اب باری آتی ہے سقوط بابل کی کہ اسے کس طرح شاہ فارس خورس ……. نے ٥٣٩قبل مسیح میں بابل پر چڑھائی کی اور اسے فتح کیا۔
اس وقت فارس کی قلمرو میں موجودہ عراق،شام، لبنان،اسرائیل،ترکی ،ایران اور افغانستان تک شامل تھے،جو اسرائیلی اسیر کر کے لائے گئے انکی بڑی تعداد موجودہ ایران اور افغانستان میں پھیلی ہوئی تھی، ٥٣٨ ق م ۔ شاہ فارس خورس نے ملک بھر یہ اعلان کیا کے جو لوگ یروشلیم کو جانا چاہیں جائیں خوشی سے جائیںاور تباہ شدہ ہیکل کی تعمیر نو کریں، اسی برس میں ہیکل کی دوبارہ تعمیر کا کام شروع ہوأ جسے شاہ بابل نبو کد نظر نے تباہ کر دیا تھا۔
اب بڑی تعداد میں اسرائیلی واپس جانے کو تیار نہیں تھے چنانچہ یہ اپنی مرضی سے ایران افغانستان ہی میں رہ گئے،سو آج بھی ایران افغانستان اور کے پی کے میں اکثریت بنی اسرائیل کے بقیہ سے ہیں۔ پہلی بات ،کائنات کی تخلیق کا نظریہ چھ دن میں خدا نے بنایا تو ریت میں پڑھا گیا اور اس سے افغان لوک داستان نے جنم لیا ،دوسری بات اسرائیلی خمیری روٹی کھاتے ہیں پتیری نہیں کھاتے، یہاں پختونوںمیں بھی خمیری ہی کھائی جاتی ہے ، عبرانی زبان کا لفظ” اور” کے معنی روشنی ،پشتو میں ”اور ” آگ کو کہتے ہیں۔
آج بھی یہا ں ظاہری طہارت پاکیزگی کا جو رواج ہے یہ اسرائیلیوں میں تھا اور داڑھی رکھنا بھی….اسی کی دھائی میں ایک خارش کے حوالے سے محققین نے تحقیق تویہ بات سامنے آئی کہ ماضی میں ایسی خارش ایک مرتبہ اسرائیلیوں میں آئی تھی ایسی تحقیق کا مطلب یہ تھا کہ پختونوں کے ڈانڈے بنی اسرائیل سے ملتے ہیں ۔،ایک اور اہم بات کہ تاریخ نے افغان لوک داستان سے یہ وا ضح کر دیا ، کہ ایران ،افغانستان ،اور فاٹا ہندوؤں اور بُدھ مت کا گڑھ تھا جس کے آثار طالبان نے دنیا کی اپیلوں کے باوجود تباہ کردئے ۔اِس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہندوؤں اور بدھوں سے کنورڈن ہیں۔
تحریر : ع۔م بدرسرحدی