تحریر: امتیاز علی شاکر۔ لاہور
کچھ لوگ بظاہر بہت خود اعتماد دکھائی دیتے ہیں پر اندر سے اعتماد کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ اس کیفیت کو ماہرین خود اعتمادی کا دھوکا قرار دیتے ہیں۔ جبکہ خوداعتمادی برقرار رکھنے اور اُس میں اضافے کیلئے پہلا قدم یہ ہے کہ خود کو اندر سے پْراعتماد سمجھنے کی مشق کریں اور ماضی کے وہ چیلنج اور مشکلات یاد کریں جن پر آپ نے اپنی محنت اور لگن کے ذریعے قابو پالیا تھا۔لوگ یہ بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے آپ سے ملاقات کی ہے ۔کوئی بھی ہمیشہ آپ کے متعلق نہیں سوچتا کیونکہ تیز ترین دور میں زندگی بہت مصروف ہوچکی ہے سب کے پاس بہت سے مسائل اور مصروفیات ہیں، خود کو یاد دلائیں کہ آپ کی غلطیوں اور خود اعتمادی کو آپ سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا اور آپ کو اس کی فکر کرنی چاہیے جب یہ احساس پیدا ہوجائے تو خود اعتمادی میں اضافہ ہوسکتاہے۔
بچوں میں خوداعتمادی پیداکرنا یا بحال رکھنا والدین اور اساتذہ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اورپریشانیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بچوں کو خود اعتماد بنانا بے حد ضروری ہوتاہے۔ہمارے اردگرد بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود ہیں جو بچپن سے جوانی اور پھربڑھاپے تک خوداعتمادی کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔علم بڑی حد تک انسان کو باشعور بناتا ہے پرتربیت کے پہلوکو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج معاشرے میں خوداعتمادی کا فقدان پایاجاتاہے۔ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں اور بہت کچھ کرگزرے ہوتے ہیں پھر بھی خودپراعتماد کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔اپنے بچوں میں خوداعتمادی پیداکرنے کیلئے ہمیں اپنے ماحول اور رویوں کا احاطہ کرنا ہوگا۔
میڈیا ورلڈلائن نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچوں کی خود اعتمادی والدین کے رویے پر منحصر ہوتی ہے۔مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ بچوں کی خود اعتمادی والدین کے رویے سے متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ آپ کے گھر میں والدین میں سے جس کا حکم چلتا ہے بچے کی خود اعتمادی یر اسی کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ برطانوی ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ ایک کثیر الثقافتی معاشرے میں آج بھی خاندانی ثقافت ایک انفرادی بچے کی خود اعتمادی کو متاثر کر سکتی ہے، خاص طور بچوں کی خود اعتمادی کو گھر میں غالب رویہ رکھنے والے ماں یا باپ کے برتاؤ کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے۔
برطانوی یونیورسٹی سیسیکس سے منسلک تجزیہ کاروں کے مطابق، بچوں کی تربیت میں اگر والدین میں سے کوئی ایک کمزور ہے تو اس کی کمزوری یا لاتعلقی کا بچے کی خود اعتمادی پر اتنا اثر نہیں ہوتا ہے کیونکہ، مضبوط اثر رکھنے والے باپ یا ماں کی طرف سے بچے کے لیے ٹھوس مشفق رویہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر ایلسن پائیک نے کہا کہ خود اعتمادی ایک انفرادی شخص کی کامیابیوں، قابلیت اور نمایاں ہونے میں دیکھی جا سکتی ہے، اسی لیے والدین بچوں کی پرورش کے دوران اس پر خاص توجہ مرکوز رکھتے ہیں کیونکہ، اگر ان میں خود اعتمادی کی کمی ہے تو، وہ اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور بد سلوکی کو چپ چاپ برداشت کر لیں گے۔
مصنفین نے ‘جرنل آف کراس کلچرل سائیکلوجی’ میں لکھا کہ خود اعتمادی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح خاندانی ثقافت اس خصوصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ خاندانوں کے اندر صنفی بنیاد پر طاقتور اختلاف پایا جاتا ہے، جو ثقافتی اختلافات کو جنم دیتا ہے اور یہ دونوں نظریات بچوں کی خود اعتمادی کو کم کرتے ہیں۔ماہرین نے اس نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیائی خاندانوں میں ماں کا کردار باپ کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے اور اسی طرح وسیع معاشرے کے اندر بھی ایسا ہی نظر آتا ہے، جہاں گھر میں باپ کا حکم چلتا ہے، جو خاندان کے فیصلوں اور نظم و ضبط کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف انگریز یا مغربی ثقافت سے تعلق رکھنے والے گھرانوں میں گھر کے اندر ماں کا باپ کے مقابلے میں مرکزی کردار ہے، جہاں ایک عورت کے اوپر بچوں اور گھر کی دیکھ بھال اور نظم و ضبط کی ذمہ داری ہے۔ایک مشاہدے کے دوران پائیک نے مغربی لندن میں رہنے والے 125 انگریز اور بھارتی گھرانوں کو شامل کیا جن کے بچوں کی عمریں سات سے دس سال کے درمیان تھیں۔ بچوں میں ایک سوالنامے کے ذریعے خود اعتمادی کا انکشاف ہوا۔تجربے کے دوران والدین نے ایک پیرینٹل منفی رویہ کے اسکیل کو مکمل کیا، جس میں محققین نے 24 سوالات کے ذریعے والدین کے منفی رویوں کا اندازا لگایا ، مثلاً کیا وہ بچوں پر ضرورت سے زیادہ حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں، کیا انھیں ڈرا دھمکا کر یا احساس ندامت کے ذریعے نظم و ضبط کا پابند بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر حد سے زیادہ بچوں کی جاسوسی کرتے ہیں۔
نتائج سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ انگریز اور بھارتی ماؤں میں زچگی کے بعد کے ڈپریشن کی وجہ سے پائے جانے والے منفی رویے کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔تاہم بھارتی والد میں ایک انگریز والد کی نسبت منفی رویے کا رجحان زیادہ تھا اور ان کے بچوں کی تربیت میں اس منفی رویہ کا اثر تھا، ان بچوں میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔دوسری طرف انگریز خاندان سے تعلق رکھنے والے بچوں میں ماؤں کی زچگی کے ڈپریشن کا رویہ بچوں کے اندرخود اعتمادی کی کمی کے ساتھ منسلک تھا۔میڈیاورلڈلائن کی رپورٹ کے مطابق نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ ماں اور باپ کا مختلف ثقافتوں میں مختلف کردار ہے َ مزید کہ نتائج سے یہ بھی نشاندہی ہوئی کہ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے بچے ناصرف والدین کے تربیت کے مخصوص طریقوں سے متاثر ہوئے تھے۔
بلکہ اس بات نے بھی انھیں متاثر کیا تھا کہ گھر میں ان کی تربیت ماں نے کی ہے یا ان کی تربیت باپ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ ماہرین خوداعتمادی کو بحال رکھنے کے کچھ طریقے بیان کرتے ہیں جیسا کہ خود کو یہ سوچ کر پراعتماد رکھیں کہ لوگ نہیں جانتے کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، احساسِ کمتری اور خود اعتمادی کی کمی سے مجمعے میں دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور منہ خشک ہونے لگتا ہے پر لوگ نہیں جانتے کہ آپ کے دل میں کیا کچھ ہے اور دل و دماغ میں کیا ہورہا ہے اس احساس کو پروان چڑھا کر بھی آپ خود اعتمادی کو بڑھاسکتے ہیں۔
ورزش سے اعتماد حاصل کریں۔ورزش اور جسمانی مشقت سے بدن خاص قسم کے ہارمون خارج کرتا ہے جو نہ صرف اعتماد بڑھاتے ہیں بلکہ دل و دماغ کو سکون بھی فراہم کرتے ہیں۔ صبح اٹھ کر 40 منٹ واک کرنے سے ڈپریشن اور ذہنی تناؤ دور ہوتا ہے اس لیے مسلسل اور مستقل طور پر ورزش، واک یا جسمانی مشقت کی عادت پیدا کریں۔ اس سے جسم پر ظاہری اور اندرونی دونوں طرح کے مثبت اثرات پڑیں گے اور آپ کا دوران خون بھی بہتر رہے گا اسی لیے خود اعتمادی کے لیے جسمانی محنت کو کلیدی درجہ حاصل ہے۔
تحریر: امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com