تحریر: شاہ بانو میر
جاوید اور اس کی شرارتیں اور ان میں چھپی ہوئی مشکلات پھر ان مشکلات پر اپنی حاقتوں سے ہی کیسے قابو پا لیتا ہے یہ جاوید کا نہیں اشتیاق احمد کے قلم اور ذہین دماغ کا کمال تھا ہر بار بچوں کیلئے نئی شرارت نیا انداز ہر نئے رسالے مین نئی شرارت یا منصوبہ نیا اچھوتا انداز کہ بچے دیوانہ وار اشتیاق احمد کے رسالوں کی جانب لپکتے تھے۔
پہلے بھی کہیں ذکر کیا تھا کہ ہمارے گھر میں بڑے بھائیجان نے لائبریری بنا رکھی تھی جہاں باقاعدہ پرانے رسالے کی واپسی کلئیر ہوتی تھی اور نئے رسالے کا اندراج ہوتا تھا وہ الماری بھری پڑی تھی مختلف رسائل سے جن میں داستان امیر حمزہ کا پورا سیٹ عمران سیریز ابن صفی کی اور بچوں کی دنیا تعلیم و تربیت اور کچھ اور نونہال شائد ماہانہ آتے تھے۔
اور سب کا پسندیدہ اشتیاق احمد نیا رسالہ گھر آتے ہی ماضی کی بہترین کارکردگی اور رسائل واپس کرنے کے اچھے انداز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیا رسالہ اسی بچے کو ملتا دوسرے منہ بسورتے رہ جاتے سکول جانے والے تمام اچھے گھروں کے بچے جو تعلیم سے پڑہائی سے اس وقت شغف رکھتے تھے لائیبریری سے لا کر اشتیاق احمد کے رسالے پڑھتے تھے کچھ روز قبل ہی کراچی کی ایک نمائش میں سفید سادہ سے سوٹ میں داڑہی کے ساتھ ایک مانوس چہرہ دیکھا ذہن پر زور دیا کہ آخر ان کو کہاں بہت زیادہ دیکھ رکھا ہے؟ کہ نیوز کاسٹر نے نام لیا۔
اشتیاق احمد تو یاد آیا ہر رسالے کی پشت پر ان کی سادہ سی پکچر ضرور ہوتی اور ان کی عام شکل کو اللہ پاک نے انتہائی ذہین دماغ دے کر کس خوبصورتی سے کامیابی عطا فرمائی یہ ہم سب جانتے ہیں آج ابھی کچھ لمحے پیشتر سنا کہ ان کا انتقال ہوگیا تو یوں لگا جیسے کوئی خاموشی سے اپنا کام کر کے شرافت سے اٹھ کر چلا گیا ہو بغیر کسی کو اپنی برخاستگی کی اطلاع دیے ہوئے ایسے لوگ زندگی میں بھی نمود و نمائش سے نجانے کیوں دور رہتے ہیں اور چلے بھی جائیں تو زیادہ اثر محسوس نہیں ہونے دیتے ان کی ظاہری شکل سے مجھے یہی انداذہ ہوتا تھا۔
ہمارے بچپن کو جن کی تحریروں نے حروف کی پہچان اور سوچ کو اپنی زبان کی روانی عطا کی انہی میں سے اشتیاق احمد بھی ایک تھے آج اگر میں کچھ لکھنے لائق ہوں تو میرے استادوں میں ایک معتبر نام اشتیاق احمد کا بھی ہے جن کے ناولوں کو بہت پڑھا ایک ایک کو کئی کئی بار پڑھا میرے محسنوں میں سے ہیں اسی لئے سوچا کہ کچھ تو اظہار تشکر کیا جائے احسان چکانا تو ایسے استادوں کا ممکن نہیں لیکن دعا ضرور کی جاسکتی ہے کہ اللہ پاک ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما کر ہم سے بھی انسانیت قوم کیلئے کوئی کام لے لے ان کی تحریر اتنی دلچسپ اور پُراثر ہوتی تھی کہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے اور جاوید کی مسلسل حماقتیں ایسے پیارے انداز میں بیان کرتے کہ جب تک وہ حماقت اپنے انجام کو نہ پہنچتی کوئی بچہ بھی رسالہ شائد چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔
ناول میں سب ملتا شرارت کی سزا کا سبق عقلمندی سے مشکل کو کیسے حل کرنا تدبیر کرنے کا ہُنر اور مشکلات سے گھبرا کر ہار نہیں ماننی ہنسی ہنسی میں اتنا کچھ ہمیں سمجھا دیتے اشتیاق احمد ان چند قیمتی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے کام کو بڑوں کیلئے مختص کر کے بہت زیادہ شائد نام نہ کمایا ہو لیکن بچے جو ہماری اگلی کامیابی ہیں ان کے شعور کیلئے بہت کام کیا ہے – جس کا احساس مجھ سمیت کم لوگوں کو ہے ہم اپنی ہی رو میں بہتے ہوئے بڑوں کے مسائل کو ہمہ وقت سوچتے ہیں جبکہ اصل ضرور تو ان کیلئے کام کی ہے جن کی بنیادیں پاکستان میں مضبوط ہونی چاہیے اشتیاق احمد کے رخصت ہونے کے ساتھ ادب کا علم کا اور بچوں کا خاص طور سے ایک شاندار روشن دور ختم ہوگیا ہے۔
عرصہ ہوا ملک میں بچوں کے رسائل کو دیکھے ہوئے نجانے اب کوئی اشتیاق احمد ہے یا سب کے سب اس وقت کی دوڑ پیسے کے پیچھے لگ کر صرف علم فروخت کر رہے جس میں تاثیر نہیں اثر نہیں تنوع نہیں اللہ پاک ان کی خدمات کے عوض انہیں رہتی دنیا تک یاد میں اور دعا میں رکھے اور اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے ہم سب کا پاکستان کا بلاشبہ قیمتی اثاثہ تھے اشتیاق احمد آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے آمین۔
تحریر: شاہ بانو میر