تحریر: ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
ہم لوگ کس طرف جا رہے ہیں کس راہ پر چل پڑھے ہیں اور کیوں چل رہے ہیں کیا اسلام کے پیرو کار ہیں ایک خدا ایک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک کتاب قرآن کے پڑھنے اور ماننے والے ہیں ہمیں دین کی تعلیم دینے والا کوئی نہیں یا ہم دین سے بہت دور جا چکے ہیں اللہ تعالیٰ اور دین کے پیر و کاروں کی تعلیمات اور ان کی پیروی سے دور جا چکے ہیں اور اللہ کہتا ہے اے بندوں میری بند گئی میں آ جا ئو تمہا را رب سو یا نہیں ہے دیکھ رہا ہے تہجد پڑھنے والے کو بھی دیکھ رہا ہے ناچ گانے والوں کو بھی دیکھ رہا ہے ہو ٹلو ں کی محفلیں بھی اس کے سامنے جا ئے نماز پر سجدہ ریز ہو نے والوں کی آہوں و سسکیوں کی بھی سنتا ہے مظلوم کی آ ہیںاور آنسو بھی اس کے سامنے قرآن کی تلاوت بھی سنتا ہے اور گانے لیں بھی سنتا ہے۔
قرآن کی تلاوت کرتے بہتے ہوئے آنسو بھی دیکھتا ہے اور ناچ گانوں کو بھی دیکھ رہاہے دو ستو وہ وقت دور نہیں جب وہ اعلان کرے گا اے مجرموں اور ظالموں آج الگ ہو جائو جرم کی انتہا کا نام قیامت ہے جب زمین کپکپائے گی آ سمان تھر تھرائے گا پہا ڑ ریزا ریزا ہو جائیں گے پانی سمندروں ،دریائوں ،بحیرہ عرب وعجم، بحیرہ او قیانوس ،سب نام نہیاد گنگا و جمنا میں آگ لگ جائے گی جاندار بھی مر جائیں گے آسمان پھٹ جائے گا ستارے ٹو ٹ جائیں گے،پہا ڑ ریز ہ ریزہ ہو جا ئینگے، سمندر ابل پڑیں گے سمندروں میں آ گ لگ جا ئے گی زمین سکڑ جا ئے گی زمین اپنے اندر کی چیزیں باہر پھینک دے گئی انسان بو لے گیا اس کو کیا ہو گیا ہے کا پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے اللہ کے حکم سے ساری کائنات کو مو ت دے دی جا ئے گی قیامت کے وقت فطرت کا نظام ایساہی ہو گا۔
سورج چاند ستارے رات دن اسی طرح کام کر رہے ہوں گے بچے اپنے بستروں سے نکلیں گے مائیں چو لہا گرم کر رہی ہوں گی لو گ کارو بار زندگی میں مصروف کار ہو ں گے کا شتکار زمینوں میں حل چلا رہے ہو ں گے گندم کپاس کا جو بھی موسم ہو گا اس کا بیج کا شت کیا جا رہا ہو گاغرض ایک دم سے ایک بھیانک آ واز آ ئے گی اور آ فت مچ جا ئے گی بازار کپڑا فروش کپڑا کھولے میٹر یا گز کے ساتھ ناپ رہے ہو گے دوسرا گاہک جیب سے پیسے نکال کر اسے گن رہا ہو گا وہ پیسے گن کر دوکاندار کو دینے کے لئے ہاتھ بڑھائے گا تو ایک دم ایک دھماکہ ہو گا دوکاندار کے ہاتھ سے کھینچی گر جا ئے گی پیسے اڑ جا ئیں گے مائیں بچوں کو نا شتہ کر وا رہی ہو ں گی تو نوالہ ہا تھ سے چھوٹ جا ئے گا منہ میں جا نے کی بجائے زمین پر گرے گا بچیاں سکول جا نے کے لئے بستر سے اٹھ رہی ہوں گی بستے بکھر جا ئیں گے آ نچل اڑ جائیں گے مائیں نا آ شنا ہو جائیں گی۔
والدین اپنی اولاد کو پہچاننے سے انکار کر دیں گے ہر انسان بھاگے گا بھائی بھائی سے بہن، بہنوں سے بیٹا باپ سے خا وند بیوی سے دوست دوست کا نہ ہو گا یہاں تک کہ سنگ مر مر ،عالی شان کو ٹھیاں ،مال ،زر ،زمین ،طلائی زیورات، کروڑوں روپے کی گاڑیاںاس دن بم پروف گاڑیاں بھی اور مال زر ،زن زمین ،دہن دولت بھی کام نہ آسکے گئی سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلیں گے چونکہ مکانوں کی چھتیں اوپر آرہی ہوں گی ،زمین پھٹ جائے گئی شیر دھاڑنا بھول جائیں گے ہا تھی چنگاڑنا بھول جائیں گے ،مائیں اپنے بچوں دودھ دینا چھوڑ دئینگی، بھیڑیے غر غرانا بھول جائیں گے سانپ پھنکارنا بھول جائیں گے پو شیدہ مخلوق سامنے آ جائے گئی جنات آ جوج ،ماجوج جو سمندر کے پانی ایک گھونٹ میں پی جائینگے۔
وہ مخلوق سامنے آ جائیں گے جو ابھی نظر نہیں آتے موت کا بے رحم پنجہ بے رحم وار کوئی ادھر گرے گا کوئی ادھر گرے گا گھر ٹو ٹے آگ لگی پہاڑ ریزا ریزا ایک حکم کے ساتھ ساری انسانیت ختم ہو جا ئے گی رونے والا کو ئی نہ ہو گا دفن کرنے والا کوئی نہ ہو گا زمین کی دڑاڑوں میں غائب ہوتے چلے جائیں گے پہلا آسمان موت کے دھماکے سے اڑ جا ئے گاجب سا ری کا ئنات ختم ہو جا ئے گی پھر اللہ پو چھے گا کون باقی ہے تو کپکپاتی ٹانگو لڑ کھڑاتی زبان کے ساتھ ملک الموت کہے گئی اوپر اور نیچے یہ تیرا غلام باقی تو اللہ کہے گا الموت مر جا مر جا تو بھی موت کا مزہ چکھ لے ایک چیخ کے سا تھ ملک الموت مر جا ئے گا یہ ا س دنیا کا انجام ہے پھر اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو موت دے کر کہے گا۔
کوئی ہے میرے مقابل تو آ ئو کوئی شریک لا ئو پھر دوسری دفعہ پھر تیسری دفعہ پھر زمین اور آ سمان کو جھٹکا دے کر کہے گا میں ہو ں باد شاہ پھر کہے گا بادشاہ کہاں ہیں ظالم کہاں ہیں ایڑھی مار کر چلنے والے مال دولت والے کہاں چلے گئے آ ج کس کی باد شاہی ہے اے میرے بندوں بندیاں تم کچھ نہ تھے میں نے تمیں بنایا اور تمیں ختم کر دیا میں تمیں دوبارہ زندہ کروں گا اب ایک کو جنت میں جانا ہے اور ایک کو آ گ کے شعلوں میں جلنا ہے نہ آگ میں جا نے والے مر سکتے ہیں نہ جنت میں جا نے والے اس وقت کا انتظار کرو پھر وہ وقت آ جا ئے گا پھر کیا ہو گا ایک آ واز آ ئے گی پھر سارے زمین سے نکل آ ئیں گے پھر کیا ہو گا سب کو میدان محشر کی طرف کھینچا جا ئے گا تین طرح کے لو گ ہو ں گے ایک وہ ہو ں گے جو سواریوں پر چل کر جا رہے ہوں گے ایک وہ ہوں گے جو پیدل چل کر جا رہے ہوں گے۔
جو سر کے بل چل کر جا رہے ہوں گے ملک شام ہے روز محشر کا یہاں شام کوئی 2000 کلو میٹر کا فاصلہ ہے کہ پائوں کے بل چل کے جائو تو چھالے پڑ جائیں گے جو سر کے بل چل کے جائیں تو کیا ہوگا صحابہ نے عرض کیا کے یا رسول اللہ کہ وہ سر کے بل کیسے چل کے جائیں گے تو آپنے فرمایا جس اللہ نے ان کو پائوں پر چلایا وہی ان کو سر پر چلائے گا قبریں پھٹ جائیں گی کچھ لوگ قبروں سے نکلیں گے ان کے چہرے کالی رات کی طرح تاریک ہوں گے اور کچھ لوگ قبروں سے نکلیں گے ان کے چہرے ترو تازہ حسین چمکتے ہو ئے ہنستے ہوئے یہ قبر سے نکلنے کا منظر ہے آ گے چلو تو اللہ تعالی ٰ کسی کے دائیں ہاتھ میں کتاب دے گا جس کا پیپر سیدھے ہاتھ میں آئے گا یہ کامیابی کی علامت تو آئو میرا پیپر پڑھو تو کسی کے الٹے ہا تھ میں آئے گا وہ کہے گا ہائے میں مر گیا۔
میرے ہاتھ میں یہ پیپر کیوں آ گیا موت آ جا مجھے ختم کر دے موت مر گئی موت آ نہیں سکتی جس کے سیدھے ہا تھ میں ہے وہ نعرے لگا رہا ہے لوگوں لو گوں آ جائو دیکھو میں پاس ہو گیا مجھے ڈگری مل گئی جنت کی نوید مل گئی کامیابی مل گئی لوگ اسے کہیں گے تو کیسے کامیاب ہو گیا تو وہ کہے گا مجھے یقین تھا میرا اللہ مجھ سے حساب لے گا میں اپنے پیپر کی تیاری کرتا رہا اوپر سے اللہ تعالی ٰ فرما ئیں گے میرے بندے کو پاک زندگی مبارک ہو خو بصورت زندگی مبارک ہو میرے عزیزوں وہ بھی کوئی زندگی ہے جہاں لوگ مرجاتے ہوں وہ بھی کوئی جوانی ہے جسے بڑھاپا کھا جا تا ہو اور وہ بھی کوئی خو شیاں ہے جو غموں کی نذر ہو جا ئیں اور وہ بھی کوئی گھر ہیں جنہیں لو گ چھوڑ کر مٹی کی چادر اوڑ کر زیر زمین منوں مٹی تلے جا کے سو جا ئیں یہ سب کچھ ایسے ہی نظر کا فریب ہے سمجھ دار عقل مند بچہ بچی مرد عورت وہ ہے جو اپنے اللہ کو راضی کر نے و آ خرت کے لئے تیاری کرے اللہ ہم سب کو معاف فر مائے آ مین۔
تحریر: ڈاکٹر امتیاز علی اعوان