تحریر: شاہ بانو میر
نجانے کیسی پرورش کی گئی کہ اس کی سوچ میں ذات اور خود سے جڑے ہوئے لوگ اس کی سوچ میں یاد میں فکر میں ٹکتے ہی نہیں ہمیشہ دکھ محسوس کرتی سب کی تکلیف اس کی تکلیف بن جاتی سب کا درد اسکا درد بن جاتا جس پر گھر والے ناراض بھی ہوتے کہ ان کی اسے پرواہ ہی نہیں۔
لیکن وہ سوچتی ان کے پاس والدین ہیں کھانا ہے لباس ہے تعلیم ہے مگر وہ جو لاکھوں میں ہیں اور بے بسی کی تصویر ہیں ان کا سوچنا ہے قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے اسکی کوشش چڑیا کی طچونچ میں پانی کا ایک قطرہ ہی سہی لیکن اسکا ضمیر تو مطمئین ہے کہ ہر حال میں کچھ بے بسوں کا سوچا کچھ تو کیا جو خواتین صرف زندگی دے کر فخر محسوس کرتیں کہ وہ اپنے قطرہ کو کسی منزل پر پہنچا سکیں کیونکہ ان کے نزدیک وہ ان کی اہم ترین ذمہ داری تھے۔
دوسری طرف وہ ہے کہ سانحہ پیرس ہوتا ہے تو ٹرالی پر سامان بیچنے والوں کی فکر بھٹے فروخت کر کے چار پیسے کما کر دال روٹی کا بندوبست کرنے والوں کی فکر شانزے لیزے پر ایفل ٹاور پر غبارے فروخت کرنے والے اور ٹارچ دیگر اشیاء سخت سردی میں بیچنے والوں کا خیال پیپر کے بغیر فرانس کی زندگی محض خوف اور ذہنی اذیت ہے باربس چرچ کی بلند و بالا عمارت سے سیکڑوں سیڑہیاں تیزی سے عبور کرتے ہوئے اس دیسی کی یاد آئی جس کے پیچھے پولیس تھی شائد پیپرز نہیں تھے۔
اس کے پاس بھی سڑکیں ویران ہو جائیں گی ہزاروں کی تعداد میں رنگ و روغن سے وابستہ ال لیگل لڑکے جو روٹی خریدیں نہ خریدیں ٹکٹ خرید کر جیب میں ضرور رکھتے کہ اسٹیشن پر جب چیکنگ ہوتی ہے تو پولیس والے ٹکٹ دیکھ کر پیپرز کا سوال کم کرتے ہیں -نجانے وہ گھروں میں دبکے کس ڈر کا شکار ہوں گے پاکستان میں ان کے والدین بہن بھائی ان کے ال لیگل اسٹیٹس آگاہ ہیں وہ دن رات کیسے جاء نماز پر سجدہ ریز ہوں گے- ادارے کے طور پے کام کرنے والی ہنگامی نوعیت کی گاڑیاں اکثر سائرن بجاتی گزرتیں تھیں تو ذہن میں دھڑکا نہیں ہوتا تھا اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سائرن پہلے کی نسبت کچھ زیادہ بجنے لگے ہیں۔
ان کے بجتے ہی پہلے دعا دل سے نکلتی تھی جو بھی مصیبت میں ہے اس کی مصیبت ختم ہو اب دعا نکلتی ہے یا اللہ کوئی نئی آزمائش کوئی نئی اذیت نہ ینا حجاب دوپٹہ چادر سکارف ایسے معتبر نام نجانے کیوں زیر عتاب آنے لگے خواتین جو بسوں میں سڑکوں پر حجاب میں رہتی ہیں ان کے لئے سوچتے ہی دعا نکلتی ہے کہ انہیں کسی متعصبانہ رویئے سے محفوظ رکھنا ورنہ نجانے یہاں کی نوجوان نسل کس طرف چل پڑے انہی سوچوں میں گم تھی کہ فون کی بیل ہوتی ہے وہ اپنے خیالات سے چونکتی ہے ہیلو ماما جی ڈری سہمی آواز جیسے اسے دنیا بلکہ اپنے گھر کی جانب لے آتی ہے۔
جیسے انسانیت کا سفر اختتام پزیر ہوتا ہے دنیا کا سب سے من موہنا بے لوث جذبہ اس کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کیا ہوا میری جان ؟ وہ بالکل اس وقت بھول چکی تھی کہ کچھ دیر پیشتر وہ کس معاملہ کی وجہ سے سب لوگوں کیلئے دعاگو تھی اور پریشان بھی ماما جی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے کہیں وہ ہمارے ٹاؤن کی طرف تو نہیں آئیں گے یکبارگی جیسے کوئی شیشہ چھناک کی آواز کے ساتھ ٹوٹتا ہے اس کا دل جیسے کوئی مٹھی میں لے کر زور سے بھینچتا ہے کہ اسے اپنی سانس گلے میں اٹکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
یہ کیا سب کیلئے سوچتے سوچتے وہ یہ سوچنا بھول گئی کہ وہ ماں ہے اس کے بچے اس وقت اس وحشت ناک ماحول میں اس کے فون کے منتظر ہوں گے کچھ حرف اسکے لبوں سے تسلی کے تشفی کے سننے کیلئے ہمت بڑہانے والے حوصلہ بلند کرنے والے ایک دم جیسے بولتے ہوئے گلا خشک ہو گیا کبھی کبھار وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں یونہی بے بس کھڑی ہوتی ہے جب وہ اپنوں کا حق ادا کرنے سے قاصر ہوتی ہے اور رشتے جو اس کا اصل ہیں انہیں ہمیشہ کی طرح وہ اجتماعی درد تکلیف میں مبتلا انسانوں کو سوچتے ہوئے ہمیشہ کی طرح فراموش کر دیتی ہے۔
شرمندگی سے بے بسی سے دو آنسو لڑھک کر اس کے چہرے پے اترے اور اس نے بے بسی سے آسمان کی طرف نم نگاہوں سے دیکھا جیسے روتے ہوئے کہہ رہی ہو مالک مجھے ایسا کیوں بنایا؟ کیوں صرف ماں نہیں بنایا کیوں صرف عورت نہیں رہنے دیا سب کا درد سب کی سوچ اور اپنے کوکھ سے جنم لینے والوں سے ایسی بے اعتنائی کل کو کیا ہوگا؟ بڑہاپا بیماری نقاہت معذوری جن کو میرا پتہ بھی نہیں ہوگا آج ان کیلئے ان کو نظر انداز کر رہی ہوں جو کل بھی میرا درد سمیٹتے تھے آج بھی اور کل بھی انشاءاللہ سمیٹیں گے مگر کیا کرے وہ جو بے بس ہے۔
ہر بے کس کیلیے ہر مجبور بے بس کیلئے وہ بھول جاتی ہے اپنے ساتھ جڑے ہوئے تمام پیارے لوگ دل میں کہتی ہے ان سے وہ کہ رہی تھی کہ معاف کر دینا میرے پیارو کہ وہ خود نہیں جانتی کہ وہ ایسی کیوں ہوں؟ کیوں ممتا نہیں ملتی آپ سب کو جب آپکو ضرورت ہوتی ہے کہ شائد لاکھوں بچے ممتا سے محروم ہر آفت اسے تقسیم کر دیتی ہے ان بچوں میں اس ممتا کو حرفوں کی صورت کہ کچھ تو مداوا ہو ان کے غموں کا ان کے دکھوں کی برسات اتنی تیز ہے کہ وہ ہر بار ساتھ دھوپ میں کھڑے منتظر اپنے جگر گوشوں کو اپنے پیاروں کو بھی فراموش کر دیتی ہے۔
تحریر: شاہ بانو میر