تحریر: محمد وجہ القمر
تمہیں خبر نہیں کیسا جہان رکھتے ہیں
ہم اہل ظرف ہیں اردو زبان رکھتے ہیں
کسی بھی ملک کی بقا اور سلامتی کا ضامن وہاں کے با شندوں کا تہذیب و تمدن اور اخلاقی برتاؤ ہے خواہ وہ معاشی میدان ہو یا تہذیبی و تمدنی جولان گاہ ۔تہذیب و تمدن کی بقا کے لئے کسی بھی زبان کا اہم کر دار ہو تا ہے۔ہندوستا نی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ملک کی تہذیبی و تمدنی ترقی میں اردو ادب کی ازلی حصّہ داری ہے۔اس تاریخی سر گزشت سے پہلے میں اردو ادب کو متعارف کرا نا چاہتا ہوں۔۔ اردو ادب صرف لسانیاتی عنصر ہی نہیں بلکہ ملکی، تمدنی اور ملّی تعمیر کا اہم حصہ ہے جس نے ملک کی تعلیمی و معاشی ترقی کے لئے ایسے بے شمار مفکر پیدا کئے جنھوں نے ملک کی کا یا پلٹ کر رکھ دی۔ جو ملک جہالت کے اندھیرے میں بھٹک رہا تھا ،جو ملک تعصب کا گہوارہ تھا، جو ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اسے اس عظیم کھائی سے نکالنے میں اردوا دب کا بہت اہم رول ہے۔
کیوں کہ کسی بھی ملک کی معاشرتی ترقی اور ذہنی نشو ونما کے لئے صحافت کی حصہ داری بہت نا گزیر ہے جس سے مولانا ابوالکلام آزاد نے روشناس کرایا۔ایک نڈر اور بے باک صحافی کی حیثیت سے ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے میں اپنی پوری توانائی صرف کر دی۔فکر و نظر کا یہ تخلیقی جوہر آسمان سے نہیں اترتا بلکہ اکثر یہ سرمایہ عالمی تہذیب کی دوسری تحریکوں اور دوسرے مفکروں کے نظریات سے اخذ کیا جا تا ہے۔ہندوستانی ادب میں ٹیگور ، اقبال، پریم چندسب نے دوسری ذہنی تحریکوں اور نظریوں سے کسبِ فیض کیا ہے۔یوں تو عہد ِجدید کے ادب میں اس روایت کی آبیا ری سر سید ،حالی، اور اقبال نے کی تھی کہ ادب کو ایک فکر ی میلان کا تابع ہو نا چاہئے اور وہ بھی اس طرح کہ ادب میں فکر و شعور کی توانالہریں بھی جذبہ و احساس کی ہم سفر رہیں جسے ترقی پسند تحریک نے زیا دہ مؤثر اور عملی شکل دیا۔
جس کا اہم مقصد زندگی کی ترجمانی سے زیادہ ذہن اور زندگی کو بدلنا بھی تھا۔اس تحریک نے ادب کے ذریعہ فکرو نظر کی معنویت کو جتایا اور ایسے سائنٹیفک نظریات کی افہام و تفہیم پر زور دیا جو انسانی ذہن کو ماضی کے دھندھلکوں سے نکا ل کر مستقبل کے روشن امکانات سے ہم آہنگ کر سکیں ۔سیاست اور فلسفہ میں جو بھی صورت ہو ـنظریہ ہو، یا عقیدہ اگر جبر بن جا تا ہے تو اکثر وہ ملک کے جمالیاتی ڈھانچہ کو اس طرح مسمار کر تا ہے کہ پھر اس کا شمار آثارِ قدیمہ میں بھی مشکل سے ہوتا ہے۔پچھلی صدیوں کو لے لیجئے کہ لا تعداد تحریکیں قلبِ انسانی کو طمانیت اور سکون بخشنے کے لئے ابھریں اور بیشتر انسانوں کے انتشار اور بے اطمینانی میں ڈوب گئیں۔ان میں ادبی تحریکیں بھی تھیںجو اپنے سے پہلے کی تحریکوں پر خط تنسیخ کھینچ کر نئے وعدے وعید کے ساتھ ابھریں تھیں۔
ایسی بھی تھیں جن کا تعلق مصوری یا مو سیقی سے تھا اور جن کی گونج ملک کے کوچے کوچے میں سنائی دیں۔اس میں مزید توانائی فلم اور تھیٹر نے پیدا کی اور مزید دردناکی ایک چھوڑ دو دو جنگ ہا ئے عظیم کے ہائے ہو نے کی۔اسی میدان حشر میں ادبی تحریکوں کے علاوہ فنی تحریکوں نے جنم لیا ۔نام نہاد ترقی کی رفتار اتنی تیز تھی کہ جتنی دیر کسی تحریک کو پَر پُر زے درست کر نے میں لگتے اتنی دیر میں کوئی دوسرا نظریہ یا تحریک ابھر نے لگتی۔ ان میں مصوری کی تحریک بھی شامل تھی ، جس نے اپنے دور کی زندگی کے آئینے میں حیاتِ انسانی کے کرب کا نظارہ کیا اور کرا یا تھا ۔اس میں نشتر تو بہت تھا البتّہ نجات کا سا مان نہ تھا۔ملک کی اس حال ِزار کے بعدکچھ لسانیا ت کے واسطے سے ،کچھ فلسفے کے نئے مکا تب کے سلسلے سے وہ طوفان اٹھے جو نئے فلسفیانہ شعور کے ذریعہ خود انسانی ادراک کو نئے چیلنج فراہم کر رہے تھے۔
ان بدلتے ہوئے رنگوں میں اپنا رنگ تلاش کر نے کا دشوار عمل آج بھی درپیش ہے۔ خاص طور پر نوآبادیاتی نظام سے ابھر نے والے معاشروں کے سامنے یہ مسائل اور زیا دہ پیچیدہ شکل میں آ رہے ہیں ــ ان میں ہم بھی ہیںــ ہندوستان ِقدیم جو ابھی تک صدیوں پرانے معاشرے اور معتقدات سے دامن نہیں چھڑا سکا ہے،ہندوستان جو جدید سے جدید تر تبدیلیوں کی دوڑ میں بھی حصہ دار ہے ،ہندوستان جو ایک ملک ، ایک معاشرہ ، ایک صدی ،ایک نسل اور ارمانوں سے بھرا معاشرہ ہےــخواہ اپنے میں کتنا ہی الجھا ہوا کیوں نہ ہوــاس معاشرہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے ،اپنی خواہشوں اور نا رسائیوں کو جا نے اور اپنے انھیں حد بندیوں میں دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ مگر ان کا غلام ہوئے بغیرآگے قدم بڑھانے کا ہنر سیکھے کہ اگر آج یہ نہ ہوا تو ہم صدیوں پیچھے رہ جائیں گے اور اپنے اوپر اعتماد کر نا کبھی نہ سیکھ پائیں گے کیوں کہ وقت کی رفتار ایک ایسا چیلنج ہے جو کسی کا پاس نہیں کر تااور پسماند گا نِ راہ سے منہ موڑ کر گزر جا تا ہے۔
صرف انھیں کا مستقبل ہے جو حال کی للکار کو ماضی کے پو رے شعور کے ساتھ قبول کرنے کی ہمت اور جر أت رکھتے ہیں۔اس چیلنج کو سمجھنے سمجھا نے کی ابتدائی کو شش اردو ادب نے کی تھی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں فرقہ واریت اور تعصب نگاری کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے جس نے ملک کو فلسفہ بھی دیا ،تعلیم بھی دی اور تہذیبی وابستگی بھی عنا یت کی ۔گو یا اردو ادب نے ایک ہی گھاٹ پر ملاّ اور پنڈت کو اکٹھا کر دیا ورنہ غالب و اقبال کے ساتھ کبیر داس اور پریم چند کا نام نہیں لیا جاتا۔مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب نے ملک کی ترقی میں قدم سے قدم ملا کر ساتھ دینے کی ہر ممکن کو شش کی اور ہر میدان میں ایک الگ حیثیت سے ملک کے نام و نمود میں سر گرداں رہیـیعنیـملک کی شیرازہ بندی میں اردو ادب کا خاص عمل دخل ہے۔
کم سے کم انسان نے خوابِ سحر دیکھا تو ہے
جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک ادھر دیکھا تو ہے
تحریر: محمد وجہ القمر
نائب صدر مدرس
مدھے پور ٹیچرس ٹریننگ کالج، مدھے پور