تحریر : ماجد امجد ثمر
عورت معاشرے کی حقیقی معمار ہوتی ہے۔معاشرے میں نکھار پیدا کرنے اور اسے خوبصورت بنانے کا فن صرف عورت ہی جانتی ہے اوران ہی کے اچھے کردار کی وجہ سے ایک تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر ایک مرد کو تعلیم یافتہ کر دیا جائے تو ممکن کہ اس کا فائدہ صرف اس کی ذات تک ہی محدود رہے لیکن ایک عورت کو تعلیم دینے سے مراد ایک پوری نسل کو تعلیم دینا ہے۔یوں اب عورت جس بھی رشتے میں ہو وہ اپنے کچھ حقوق رکھتی ہے۔کیونکہ عورت صرف جنس نہیں انسان ہے وہ بھی احساس و جذبات رکھتی ہے۔اپنی خواہشات رکھتی ہے۔لیکن افسوس کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں ہر مرد ہی عورت پر غالب آنا چاہتا ہے۔
فرسودہ روایات کے مارے ہوئے اور پسماندہ ذہنیت رکھنے والے لوگ آج بھی عورت کو حقیر ہی جانتے ہیں ۔ان کے حقوق کو پامال کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔لیکن خود یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ عورت سے ہمیشہ اچھی توقع ہی رکھتا ہیں آخر ایسا کیوں؟ مشرقی مردوں کی خوش قسمتی یہ ہے کہ عورت کے معاملے میں انہیں کانٹوں کے بدلے ہمیشہ پھول ہی ملتے ہیں۔کیونکہ عورت ذات میں صبر اور برداشت کی صلاحیت مردکی نسبت کئی گنا ذیادہ ہوتی ہے۔وہ خود میں اَنا اور انتقام کی آگ کو لگنے سے پہلے ہی بجھا دیتی ہے اور یہ حقیقت بھی ہے خصوصاً مشرقی عورتوں میں ، ورنہ ان کا موازنہ اگر مغربی عورتوں سے کیا جائے جو صرف ایک تھپڑ کھانے پر اپنے خاوندوں کو جیل کی سیر کروا دیتی ہیں ایک تحقیق کے مطابق آج دنیا میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی تشدد کا شکار ہے۔اور یہ شرح ایک لمحہء فکریہ ہے۔
خواتین پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن ہر سال 25 نومبر کو منایا جاتا ہے۔اس دن کا اہم مقصد عوام میںعورتوں پر تشدد کے خاتمے بارے اور اس تشدد کی وجہ سے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات بارے شعور پیدا کرنا ہے۔ اور پچیس نومبر سے دس دسمبر( انسانی حقوق) کے عالمی دن تک عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے ایک سولہ روزہ مہم چلائی جاتی ہے۔ کیونکہ آج بھی عورتوں کو جنسی ،جسمانی یا نفسیاتی تشدد کے زریعے دبانے کی کوشیش کی جاتی ہے۔اور یہ المیہ نہ صرف ہمارے ملک تک محدود ہے حتیٰ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی ممالک کی بہت سی خواتین کے ساتھ بھی تقریباً یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ عورت پر تشد د نہ صرف ایک ظلم ہے ایک جرم ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔
عالمی سطح پر ایک مشاہدہ کے مطابق تمام دنیا کی 35% خواتین یا لڑکیاں اپنی تمام ذندگی میں کسی جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔تمام دنیا کی خواتین میں سے250ملین ایسی ہیں جن کی 15 سال سے بھی کم عمرمیں شادی کر دی جاتی ہے۔ کم عمر میں شادی ہونے والی خواتین کی ایک تو تعلیم نامکمل رہ جاتی ہے۔اور دوسرا وہ ذہنی طور پر ذیادہ پختہ نہیں ہوتیں جن کی وجہ سے انہیں عملی ذندگی میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے بھی وہ تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
ایک مرد کا عورت پر تشدد کی چند بنیادی وجوہات یہ دیکھنے میں آئی ہیں جن میں مرد کے انفرادی نفسیاتی مسائل، ذندگی کا ناقابلِ برداشت دبائو ، منشیات یا الکوحل کا استعمال ، شکی مزاج ہونا ، عورت کا مناسب کھانا وغیرہ نہ پکانا، اور کم جہیز لانے جیسے عوامل ایک عورت پر تشدد کی وجہ بنتے ہیں۔ خواتین پر تشدد یا انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا ان کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے ان کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ان سے بڑھ کر یہ کہ عورتوں میں فیصلہ سازی کے حوصلے کو کم کرتا ہے۔وہ قانون کے ہوتے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتی ہیںاور اپنے مستقبل بارے ایک غیر یقینی صورتِ حال میں جکڑ جاتی ہیں۔
ایک طرف تو مرد عورت کو اپنی ذندگی کی ہیرئوین بھی کہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک ولن جیسا سلوک کیوں کرتا ہے۔؟خصوصاً ہمارے معاشرے میں ایک عورت جب اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو وہ بھی گستاخی یا بے ادبی کے زمرے میں تصور کی جاتی ہے اس کے لئے نامناسب الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔مرد غلطی کر کے بھی اکڑتا ہے اور بیچاری عورت بے گناہ ہوتے ہوئے بھی پِس جاتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت کو آج تک اپنا حق لینا نہیں آیا۔اسے اپنی قدر کا شائد خود کو ہی اندازہ نہیں یادوسروں کو اپنی اہمیت بتانی نہیں آئی۔
ورنہ عورت ایک بڑی باعزت ہستی ہے ایک قابل احترام ذات ہے۔ وجود زن سے ہے تصویر ِ کائنات میں رنگ۔اس کے ساز سے ہے ذندگی کا سوزودروں۔اب اسلامی رو سے دیکھیں تو عورت کی ذات کو جس قدر عزت مذہب اسلام نے دی ہے دوسرے کسی بھی مذہب نے نہیں۔اسلام نے ہی ایک عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کئے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگروہ بیٹی ہے تورحمت،اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت۔لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے تو کہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے کہیںوہ غیرت کے نا م پر قتل ہو رہی ہے تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہے کہ وہ عورت کو کمزور جانتا ہے لیکن شائد مردکو ایک عورت کی طاقت کا اندازہ نہیں کیونکہ عورت اگر باغی ہو جائے تو پھر اس سے بڑا باغی کوئی نہیں اگر وہ فتنہ پر اتر آئے تو اس فتنے سے پھیلنے والی تباہی کی کوئی حد نہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔کہ ‘ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ’۔سورہ البقرہ۔) ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ’اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ ذندگی بسر کرو۔’سورہ النسائ)۔ایک تحقیق کے مطابق مسلمان اپنی خواتین پر ذیادہ تشدد کرتے ہیں۔اور پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میںخواتین کے خلاف تشدد میں کئی گنا اضافہ ہو ا ہے۔ جو کہ ایک شرم کی بات ہے۔عورتو ں پر تشدد کی ایک وجہ تعلیم کی کمی ہے تو سب سے پہلے ان کی ذات میں ا س کمی کو دور کرنا ہو گا ۔انہیں خوب تعلیم یافتہ بنانے کی ضرورت ہے۔تا کہ وہ اپنے حقوق کے بارے آگاہ ہو سکیں اپنے حقوق کے خلاف آواز اٹھا سکیں اپنے دیگر مسائلِ ذندگی کو باآسانی سلجھا سکیں۔
ویسے توہمیں جس سبق کو پڑ ھنے کی ضرورت ہے وہ انسانیت کا سبق ہے ۔ اوراس کے علاوہ انہیں قانونی طور پر تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی کم عمری میں شادی کرنے سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔اور آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ عورتوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اس معاشرے میں کوئی بھی انہیںان کے حقوق اتنے آرام سے نہیں دے گا جب تک وہ اپنے حق خود نہ لیں بلکہ انہیں دوسروں سے اپنا حق چھیننا ہو گااور موجودہ معاشرے میں انہیں حقیقی معنوں میں اپنا مقام قائم کرنا ہو گا اسی طریقے سے ہی وہ ہر طرح کے تشددسے محفوظ رہ سکتی ہیںاور عورت پر تشددکی اس معاشرتی روایت کو آسانی سے سبوتاژ کر سکتی ہیں۔
تحریر : ماجد امجد ثمر