تحریر: واٹسن سلیم گلِ،ایمسٹرڈیم
دنیا جہان سے 195 ممالک کے عالمی راہنما جن میں کئ ممالک کے سربراہان، سیاسی نمایندے اور ماہرین شامل ہیں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ہیں۔ یہ کانفرنس انتہائ ہائ سیکیورٹی میں منعقد ہو رہی ہے۔ دنیا بھر سے 40 ہزار کے لگ بھگ لوگ اس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اس طرح کی بہت سی کانفرسس اس سے بیشتر بھی منعقد ہو چکی ہیں مگر نتیجہ وہی دھاک کے تین پاٹ۔ میری ناقص عقل کے مطابق اس وقت اقوام عالم کو جو سب سے بڑا اور تباہ کن خطرہ لاحق ہے وہ دہشتگردی نہی بلکہ گلوبل وارمینگ کو کنٹرول کرنا ہے۔
ارے بھئ دہشتگردی تو تب ہو گی جب ہم رہیں گے۔ جب ہم ہی نہ ہونگے تو تب نہ ہم ہونگے نہ دہشتگدری کی داستان ہو گی داستانوں میں ۔ آج بھی دہشتگردی کو روکنے کے لئے مغربی ممالک اربوں نہی کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں ۔ مگر اس گندگی کو جو ایک عام انسان کی نظر سے اُوجھل ہے مگر دیمک کی طرح ہماری فضا کو چاٹ رہی ہے ہم اس پر توجہ نہی دے رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے گلوبل وارمینگ کا شور مچانے والے ممالک خود ہی اس کے سب سے بڑے زمہ دار ہیں۔
امریکا ، چین ، یورپ ، روس ، سعودی عرب ، انڈیا اس کار شیطانی میں سب سے آگے ہیں۔ 2014 میں یورپیئن کمیشن اور نیدرلینڈ کی ماحولیات کی ایجنسی کی طرف سے جاری ہونے والے ڈیٹا بیس کی بنیاد پر مجموعی طور پر صرف چین نے فضا میں مجموعی تناسب کا 28 فیصد کاربن ڈائ آکسایڈ خارج کیا ،امریکا دوسرے نمبر پر رہا۔ کانفرنس میں موجود راہنما آج بھی کسی ایک حل پر متفق نظر نہی آرہے ہیں۔ کیونکہ 2011 میں ٹارگٹ یہ تھا کہ 2015 کی میٹینگ میں کوئ متفقہ لاحہ عمل سامنے آئے گا۔ مگر اب لگتا ہے کہ بات 2020 تک بھی جاسکتی ہے۔
یعنی 1992 میں اس کانفرنس کا آغاز ہوا اور پیرس میں ہونے والا یہ 21 واں اجلاس ہے مگر نتیجہ صفر؟۔ اب اس کانفرنس سے کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں اور اس کانفرنس میں ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے لئے کونسے عملی اقدامات کئے جا سکتے ہیں اور یہ اقدامات کتنے قابل عمل ہونگے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مگر اس کا نقصان سب کا برابر ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ مالی فائدہ صرف چین ، امریکا، اور بڑے سرمایے والے ممالک کا ہے۔ مگر گلوبل وارمینگ کا نقصان اس سرزمین پر رہنے والے ہر ایک بشر ، سمندر کی مچھلیوں ، ہوا میں اڑتے پرندوں ، زمین کے چرندوں ، زمین کے نیچے کے کیڑے مکوڑوں تک کا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی اگلی نسلوں کو ایک خوفناک فضائ ماحول دے کر جارہے ہیں۔ 1750 میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا، اس کے بعد تو جیسے ہماری فضا مین آلودگی ایسے شروع ہوئ کہ رکنے کا نام ہی نہی لے رہی ۔ عمومی طور پر ہم اگر ایک ماچس کی تیلی بھی جلاتے ہیں تو اس میں سے اٹھنے والی ایک خاص گیس ہماری فضا میں موجود رہہ کر تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ تو اندازہ لگاہیں کہ دنیا میں کروڑوں فیکڑیاں، کروڑہا گاڑیاں ، ہوائ جہاز ، گھروں میں جلنے والے چولہے وغیرہ ان تمام چیزوں کے جلنے سے پیدا ہونے والی لاکھوں ٹن کاربن ڈائ اوکسائڈ اور گرین ہاؤس گیسس اوپر جاکر ہماری فضا میں زبردست منفی تبدیلی پیدا کر رہیں ہیں۔
آپ اگر ہمارے سولر سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو ہمارے سورج ، نو سیاروں اور سینکڑوں چاندوں کے درمیان ایک ہماری زمین ہی نظر آتی ہے جس پر زندگی دور سے نظر آتی ہے۔ ہماری زمین کے گرد ہماری فضا ہے جو ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔ یہ فضا سورج کی گرمی کو ایک مخصوص مقدار میں ہم تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر یہ فضا سورج کی تپش روکنے میں ناکام ہو جائی تو زمین پر موجود ہر پہاڑ، وادیاں، جنگل، درخت ، سمندر سب جل کر خاک ہو جائے۔ اور اگر یہ ہی فضا سورج کی گرمی کو مکمل طور پر روک لیتی ہے تو ہماری زمین برف کا ایک گولا بن جائی ہے۔
یعنی دونوں ہی صورتوں میں زمین پر سے زندگی ناپید ہو جائی ہے۔ اس فضا میں قدرت نے ایک بیلنس رکھا ہے جو ہماری غلطیوں کی وجہ غیر متوازن ہو رہی ہے ۔ 80 کی دہائ میں سائنسدانوں اوزون میں ایک سوراخ کی نشاندہی کی تھی جسے اقوام عالم نے مل کر کسی حد تک کم کیا تھا۔ فضا میں آلودگی کی وجہ سے ہمارے موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تبدیلی سے کہیں تو بارشوں سے سیلاب پیدا ہورہے ہیں تو کہیں خطرناک خوشک سالی شروع ہو چکی ہے ۔ گلشیر پگل رہے ہیں جس کی وجہ سے سمندر کی سطع میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر صورتحال پر قابوں نہ پایا گیا تو آنے والے چند سالوں میں چند بڑے شہر جن میں منیلا ، میامی ، ڈھاکہ، ٹوکیو سمیت کئ ممالک کے شہر پانی میں ڈوب جاہیں گے۔ جن میں چین انڈیا ، انڈونیشیا ، امریکا شامل ہیں ۔ دنیا کے کئ شہر قصہ پارینہ بن جاہیں گے۔ اس کے علاوہ سمندر کے پانی کا دریاؤں کے پانی سے ملاپ لاکھوں ایکٹر زرخیز زمین کو بنجر بنا دے گا۔ پاکستان میں بھی اسعالمی سطح پر ماحولياتي تغیُر کا اثر ہونا شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان کے بھی کئي ساحلي علاقے متاثر ہو رہے ہيں۔ صوبۂ سندھ کے شہر ٹھٹہ کے علاقے کيٹي بندر اور اُس کے آس پاس، سمندري پاني زرخیز زمينوں کو تباہ کر رہا ہے اور زیرِ زمین بھی سمندری پانی کے دباؤ کی وجہ سے میٹھا پانی کھارا ہو گیا ہے۔ اِس صورتحال میں وہاں انسانی آبادی اور جانوروں کا رہنا مشکل ہو رہا ہے۔ دنیا میں سیلاب ، زلزلوں اور سمندری طوفانوں کا ریکارڈ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ 40 سال کا ریکارڈ حیرت انگیز ہے۔
تحریر: واٹسن سلیم گلِ،ایمسٹرڈیم