تحریر: شاز ملک
انسان قدرت کی تخلیقات میں سب سے افضل تخلیق ہے. جسے خالق نے فخر سے اپنے فرشتوں کے سامنے علیٰ اور فضل تخلیق کے طور پر پیش کیا اور تعظیمی سجدہ بھی کروایا مگر سوا شیطان ملعون کے اسے بحکم خدا سبھی نے تسلیم و رضا سے قبول کر کے سجدہ کیا ،اسس ایک حکم کی خلاف ورزی پر الله نے اسے اپنی بارگاہ سے بے داخل کر دیا مگر شیطان نے بھی آخر انسان کو بہشت سے نکلوا کر سنگللاخ زممیں پر لا کر دم لیا یوں انسان اور شیطان کی ازلی جنگ شروع ہوئی جو ازل سے لے کر ابد تک رہے گی یعنی برایی اور اچهایی زندگی کے میدان کارزار میں ہمیشہ ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں گی۔
انسان کی سرشت میں جہاں نرمی رکھی گی ہے وہیں انسان کے اندر پتھروں کی سختی بھی دکھایی دیتی ہے انسان بے یک اوقت اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ بھی تصور کیا جاتا ہے جس میں خیر و شر کا عنصر ایک ساتھ پایا جاتا ہے ،بلکل ایسے جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹوں کا تصور ہمیشہ رہتا ہے ، جیسے کیچڑ میں کنول کا کھلنا جیسے اچھے وقت کے ساتھ برے لمحوں کا چلنا، جیسے ہونی کے ساتھ انہونی کا تصور۔
کرہ ارض پر جنگ و جدل کا سلسلہ انسان کے قتل سے ہی شروع ھوا جسکے پیچھے بھی شیطان مردود کا ہاتھ تھا ، تب سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے کہیں حق و باطل کی جنگ تو کہیں خیر و شر نبرد آزما، اور اب آج کے انتہایی ترقی یافتہ معاشرے میں یہ سلسلہ عروج پر ہے جبکے دنیا کی بساط لپیٹنے کی تییاری کی جا رہی ہے انسان ہی انسان کے ہاتھوں پا مال ہو رہا ہے شیطان کا الہ کار بن کر
کہیں یہ جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔
تو کہیں زبانوں کے نشتر اور رویوں کے تیروں اور لہجوں کے پتھروں سے دلوں کو زخمی کرنے کا کام لیا جاتا ہے قکے ہم لوگ آزاد معاشرتی نظام میں مشینوں اور ہتھیاروں کے اسس جدید دور میں سانس لینے کا شعور تو بھر حال رکھتے ہیں ،سو اپنے مہذب ہونے اور علیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ہنر کو یوں آزمانا سیکھ لیا ہے کے ہم اپنے الفاظ رویوں لہجوں اور باتوں کے سارے ہتھیاروں سے لیس ہو کر کسی بھی دوسرے انسان کے دل اور روح کو قتل کرنے کا ہنر حاصل کر بیٹھے ہیں۔
اور ہمارے آج کل کے اسس معاشرتی نظام میں ہم اسس ہنر میں اتنے مشاق ہو چکے ہیں
کہیہ سب کرنے کے بعد بھی ہم پر کوئی الزام نہیں لگتا اور ہم اپنے سفید بے داغ دامن کو لئے پھرتے ہیں ،ہم اپنے معاشرتی نظام میں سیاست کو اسس طرح رچا بسا چکے ہیں کے اس سے کنارہ کرنا اب ہمارے لئے ممکن نہیں رہا -ہر جگہ سیاستی نظام کو فروغ دے کر ہم نے اپنی زندگیوں میں سے سکون کو بے داخل کر دیا ہے۔
گھروں کی سیاستیں ، دفتروں کی سیاستیں ، ہمارے زہنو پر اثر انداز ہو کر گھروں کو تباہ اور ہمارے اندر انتشار کو فروغ دے چکّی ہے ، ہم انسان اجتمایی طور پر جینا چھوڑ کر انفیرادی طور پر جینے کے خواہشمند ہو چکے ہیں ،اپنےاندر لگے بیشمار”” انا “”اور “”میں”” کے بتوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر بیٹھے رہتے ہیں- اسی لئے ایسے محیرالعقول واقعیت رونما ہو رہے ہیں کے انسان کیا شیطان بھی انسان کی تنزلی کو دیکھ کر حیران ہے۔
اپنے اندر دلوں ذہنوں میں حسد بغض لالچ کے ان گنت پتھرجمع کر کے ہم خود پتھر کے ہو چکے ہیں۔ اسی لئے جب بھی ہمیں موقع ملتا ہے ہم ایک دوسرے کی جانب لفظوں اور لہجوں رویوں کے پتھر مار کر دوسرے کو سنگسار کرنے میں ہی خوشی محسوس کرنے لگے ہیں اور پھر یوں مطمیئن ہو جاتے ہیں جیسے ہم ایک نیک کام کر رہے ہیں۔
اپنے اندر چھپے بغض او کینے کے پتھر انسان پر نہیں شیطان پر برسا کر آئے ہیں۔ لیکن ابھی بھی وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے آیئے اپنے من کی دنیا میں لگے جابے جاشر اور بری کے بتوں کو توڑ کر اپنے اندر نیمی کی سرشت کو ابھار کر اپنے اندر سے سارے پتھروں کو حوصلے ضبط کے دریا میں پھینک کر اپنے رویوں لہجوں باتوں کو شبنمی نرمی کی پوہار میں بھگو کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو سہل بنانا سیکھ لیں الله ہم سبکو سمجھنے کی توفیق عطا فرماہے آمین۔
تحریر: شاز ملک