تحریر : اختر سردار چودھری
معروف ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی لکھنو جیسے شہر میں 20 مارچ 1923 ء پیدا ہوئے ۔ اسلامیہ ہائی سکول لکھنو سے میٹرک پاس کیا۔ ایف اے اور بی اے بطور پرائیویٹ امیدوار پاس کرنے کے بعد لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا اور پھر ماہنامہ ”ترکش” لکھنو میں بطور ایڈیٹر ملازمت کا آغاز کیا۔ آپ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے ۔ کراچی میں 1952ء میں ثریا بیگم سے شادی ہوئی۔علم و ادب سے وابستگی کے باعث کم عمری میں ہی”کون کسی کا” جیسی مختصر کہانی سے لکھنے کا آغاز کیا، اور پھر لکھتے چلے گئے ،شوکت صدیقی نے اگرچہ افسانے ، کہانیاں اور کالم لکھنے کے علاوہ شاعری بھی کی لیکن ناولوں نے انہیں غیر معمولی شہرت دی اور وہی ان کی پہچان بنے ۔جن میں دو ناولوں نے شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔خدا کی بستی کو اردو ادب میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے اب تک دنیا کی 64 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ، یہ نہ صرف فروخت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے ، بلکہ جب 70 کی دہائی میں پی ٹی وی نے اس کا سیریل بنایا تو اس کی مقبولیت کاجو عالم تھااس کی مثال دینا مشکل ہے۔
ایسی مقبولیت کسی اور ٹی وی ڈرامے کو حاصل نہ ہو سکی ۔ اس سیریل کو پاکستان کی تاریخ کا پسندیدہ ترین ڈرامہ سیریل کہا جاتا ہے, اس ناول میں ایک جوان عورت سلطانہ اور اس کا بھائی انو، مرکزی کردار ہیں، دونوں غربت کے ہاتھوں تنگ اور ایک کے بعد ایک مصیبت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔اس ناول کے لیے انہیں 1960 ء میں آدم جی ادبی انعام بھی دیا گیا۔1997 میں انہیں ‘پرائیڈ آف پرفارمنس’ اور2004میں اکادمی ادبیات پاکستان کے ‘کمالِ فن’ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ان کے ناول ‘خدا کی بستی’ کی 50 ایڈیشن شائع ہوئے۔شوکت صدیقی کے زیادہ تر افسانے جرم اور گناہ کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ انہوں نے نچلے طبقے کے ایسے کرداروں کی حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے۔
جانگلوس’ ان کا ایک طویل ناول ہے ،جسے پنجاب کی الف لیلیٰ بھی کہا جاتا ہے ۔اس ناول میں رحیم داد اور لالی دو کردار ہیں، جو جیل سے بھاگے ہوئے مجرم ہوتے ہیں ۔یہ ایک مکمل طور پر معاشرتی ناول ہے ۔ اردو زبان پر معاشرتی ناول نگاری کی وجہ سے ان کا موازنہ چارلس ڈکنز سے بھی کیا جاتا ہے ۔ ان کے دیگر ناولوں اور کہانیوں کی طرح جانگلوس میں بھی انسانیت ایڑیاں رگڑتی اور شرافت لہو روتی ہے ۔ اس ناول میں کوئی بھی ہیرو نہیں ہے، جو ہیرو ہیں وہ بھی ولن ہی ہیں ۔تین جلدوں پر مشتمل جانگلوس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ اس ناول جیسی منظر نگاری شائد ہی کسی اور ناول میں پڑھنے کو ملے ۔جانگلوس میں انہوں نے جرائم بیان کرتے ہوئے ،اپنا طویل صحافتی تجربے کو بھی استعمال کیا ۔پنجاب اور سندھ کے ظلم اور نا انصافی سے بھرے جاگیردارانہ نظام کو سمجھنے کیلئے جانگلوس ایک اہم دستاویز بھی ہے۔
جانگلوس کے متعلق شوکت صدیقی کہتے ہیں۔” جانگلوس کے ابتدائی مراحل میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے لکھنے کیلئے صرف مشاہدہ اور تجربہ کافی نہیں بلکہ مطالعہ بھی ضروری ہے ۔ اس کے لئے پنجابی کے ساتھ ساتھ سرائیکی بھی سیکھنا پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لکھنے پڑھنے کا کمرہ اسٹڈی سے ورکشاپ بن گیا۔ پنجاب اور پنجابی عوام کے بارے میں مجھے جو کچھ مل سکتا تھا، میں نے حاصل کیا۔ کمرے کے درویوار پر جگہ جگہ پنجاب کے نقشے لگے تھے ۔ میری میز پر اور ارد گرد ایسی کتابیں نظر آنے لگیں ،جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح پنجاب سے تھا ،ان میں اردو پنجابی لغت، پنجابی نامہ، پنجاب کی عورت، لغات سرائیکی، پنجاب رنگ، نغمہ صحرا ، کلامِ فرید، گروگرنتھ اور اْردو پنجاب کے دیہہ خدا، تاریخی پنجاب، پاور ان پنجاب ولیج، ڈسٹرکٹ اینڈ اسٹیٹس گزیٹریز، ہسٹری آف دی پنجاب ، اے بک آف ریڈنگز، ان دی ہسٹری آف دی پنجاب کاسٹس اور بے شمار کتابیں اور پمفلٹس شامل ہیں۔
کتنی حیرت کی بات ہے کہ شوکت صدیقی ایک نامور صحافی اور شاعر بھی ہیں ،لیکن ان کی شہرت کا سبب صرف اور صرف ان کی ناول نگاری ہے ۔انہوں نے عملی زندگی کاآغاز 1944 میں ماہنامہ ‘ترکش’ سے کیا ۔اس کے بعد وہ روزنامہ ‘مساوات’ کراچی کے بانی ایڈیٹر اور روزنامہ ‘مساوات’ لاہور اور روزنامہ ‘انجام’ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ۔ایک عرصہ تک وہ ہفت روزہ ‘الفتح’ کراچی کے سربراہ بھی رہے اس کے علاوہ وہ کئی ہفت روزہ اور روزنامہ اخبارات سے وابستہ رہے ۔ معروف کالم نگار اور ادیب منو بھائی کہتے ہیں کہ شوکت صدیقی ایک بہت بڑے صحافی بھی تھے۔
شوکت صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں تیسرا آدمی’1952 ئ۔اندھیرا اور اندھیرا1955ئ۔ راتوں کا شہر1964ئ۔کیمیا گر’1984ء ۔جبکہ ناولوں میں ‘کمیں گاہ’ 1956۔خدا کی بستی’1958 ۔ ‘جانگلوس’1988ء ۔اور ‘چار دیواری’1990 میں شائع ہوئے جانگلوس پر کام کرتے ہوئے وہ امراضِ قلب میں مبتلا ہوگئے تھے اور کراچی میں طویل علالت کے بعد18 دسمبر 2006 کو شوکت صدیقی 83سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
تحریر : اختر سردار چودھری