موت ایک ا ٹل حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن ہر شخص کے ذہن میں سوال پیدا ہوتاہے کہ موت کیا ہے ؟موت وہ زندہ حقیقت ہے جو ہمارے ہر طرف موجود ہے وہ ہما رے دائیں بھی ہے اور با ئیں بھی ،وہ اوپر بھی ہے ،نیچے بھی ،وہ تو ہر جگہ مو جو د ہے ، صحر ا کی ویر انیو ں میں اور شہر کی محفلو ں میں بھی ،سمند ر کی تلا طم خینر مو جوں میں بھی اور خشکی کے سنا ٹو ں میں بھی ،مو ت تو ہر شخص کا تعا قب کر ر ہی ہے ،ذکی اور عا لم کا بھی ،غبی اور جا ھل کا بھی ،صا حب ثر وت کا بھی ،مفلس اور قلا ش کا بھی مو حد اور مسلم کا بھی ، مشر ک اور کا فر کا بھی ، وہ نہ فر عو ن جیسے متکبر کو حھپو ڑ تی ہے ، نہ مو سی ؑ جیسے کلیم اللہ اور ایو بؑ جیسے صابر کو ،وہ نہ نمر و د جیسے سر کش کو معا ف کر تی ہے ، نہ ابر ا ہیم جیسے خلیل ا ﷲ ؑ اوراسماعیل ؑ جیسے ذبیح ا ﷲ کو ،اس کی نظر میں ارسطو اور افلا طو ن جیسے حکیم اور ابو جہل وابو لہب جیسے نا دان بر ابر ہیں، اس سے نہ ابوبکرؓ و عمرؓ محفوظ رہے نہ سرور کائنات حضرت محمدﷺ روح کیا ہے ؟ مر تے وقت انسا ن پر کیا گز رتی ہے ؟ مر نے کے بعد کیا ہو تا ہے ؟ ہمارے مذہب اسلا م میں ان تمام باتو ں کے جو اب مو جو د ہیں ۔اس وقت دنیا کے تقر یبا تمام تر قی یا فتہ ممالک کے بہت سے ڈا کٹر ز سا ئنس دان اور دیگر ر یسر چ کر نے والے مو ت پر تحقیقا ت کر ر ہے ہیں انھو ں نے ہزاروں قر یبِ مرگ لو گو ں کے تجربات اور بیانات جمع کیے ہیں اور ان کی چھا ن بین کر رہے ہیں۔ 1975میں بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈاکٹرز ریمنڈ موڈی کی ایک کتا ب life after death شا ئع ہو ئی۔عوام الناس کے علاوہ ڈاکٹروں نے بھی اس کتاب میں اور اس مو ضوع میں کافی دلچسپی 8 لی۔ اس کتاب میں ایک سو پچاس قریبِ مرگ لو گو ں کے بیانات و تجربات قلم بند کیے گئے ہیں۔ان بیا نا ت میں سے سب سے حیر ت ا نگیز اور اہم جسم کے بعد وجود کے احسا س کا بیا ن ہے کیو نکہ آ ج کی دنیا میں بہت سے مادہ پرست لو گو ں کے نزد یک ما د ی جسم کے بغیر وجود کا تصور ناممکن ہے ۔ دوسری با ت جو اہم اور حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ تما م افراد نے ایک بڑی تیز رو شنی کا ذکر اور تجربہ مختلف طر یقو ں سے بیان کیا ہے ہر مر نے والے نے اس تیز رو شنی کی حرا ر ت ٗ تمازت اور شفقت کو محسو س کیا مگر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر نے سے معذ وری کا اظہار کیا ہے ۔ البتہ اتنا ضرور بتا یا ہے کہ وہ رو شن وجود بڑی آسا نی سے ان پر محیط ہو گیا ۔ لیکن موت کے بعد کی ز ند گی کا حقیقی راز خدائے بز رگ و بر تر کے سوا کو ئی نہیں جا نتا اورنہ جان سکے گا ۔شکا گو کی ایک مشہو ر ما ہرِ نفسیا ت ڈاکٹر ایلز بیتھ کیلر نے آٹھ سا لو ں میں بڑی محنت اور جا نفشا نی سے ہزاروں مر تے افر اد کے تجر با ت لکھے ہیں اور بتا یاہے کہ ان میں بہت سے لو گو ں کی سانس اور دل کی د ھٹر کن بند ہو گئی تھی لیکن وہ اپنے گر دو پیش سے با خبر تھے ۔ انسا نی اعضاء انسان کے مر نے کے فوراٰبعد نہیں بلکہ بعض اعضا ء مختلف وقفے تک کام کرتے ر ہتے ہیں ۔ مثلاد ما غ دس منٹ تک ، آنکھیں تیس منٹ تک ،کھال پانچ گھنٹے تک ، ہڈ یا ں تیس دن تک اور ناخن مر نے کے فو ر ی بعد بڑھنا بند ہو جا تے ہیں ۔ اسی طر ح نیو یا رک کے ایک ما ہر نفسیا ت ڈاکٹر کا ر لس اور سس نے مر نے والو ں کے متعلق ۸۷۷ ڈاکٹرز اور نر سو ں کے مشا ہد ات ا کٹھے کیے ہیں ۔ان کی کیفیت یہ تھی کہ نا قا بل بیان سکو ن ، حسن او مسر ت کا جذبہ ان پر طا ر ی ہو گیا ۔ بعض نے بتا یا کہ ذرا سے وقفے میں ان کی ز ند گی بھر کی یاد یں تا زہ ہو گئی ہیں اور بعض کو ا پنے مر ے ہو ئے لو گو ں کی جھلکیا ں نظر آئی ہیں ۔ کچھ لو گو ں نے دو سر ی د نیا کے حسین و د لفریب منظر د یکھے مشہو ر سا ئنسد ان تھا مس اسلو ایڈیسن کے ا نتقا ل کا وا قعہ قا بل ذکر ہے ۔ وہ اپنے خا ند ان کو ایک ا لجھن میں چھو ڑکر مر ے ۔ ان کے متعلق بعض کا د عو ی ہے کہ وہ خداکو ما ننے وا لے تھے ۔ جب ایڈیسن مر نے لگے تو ان کی بیو ی نے ان کا ہا تھ پکڑ لیا ۔ ایسا د کھا ئی د یتا تھا کہ وہ گہر ی نیند سو ر ہے ہیں ۔ان کا دل غیر معمو لی د ھڑک رہا تھا ، مکمل خا مو شی تھی ۔ اچا نک ایڈیسن کسی کی مد د کے بغیر ا ٹھ کھڑے ہو ئے ۔ انھو ں نے اپنی آنکھیں کھو لیں اور کئی سیکنڈ تک سا منے کی د یو ار کو گھو ر تے ر ہے۔ پھر اپنی بیو ی کی طر ف مڑے اور کہاکہ ’’میں حیران ہو ں کہ وہا ں کتنا خو بصو ر ت منظر ہے ‘‘ ا نھو ں نے کیا چیز د یکھی ؛ا یڈیسن نے یہ نہیں بتا یا کو ئی شخص نہیں بتا سکتا ۔ایک و اقعہ ہنر ی وارڈ بیچر کاہے جو اپنے زما نے کے خطیب تھے اور لوگوں کو خدا کے عذاب سے ڈرانے پر انھو ں نے ہز ارو ں خطبے دیے ۔ وہ بہت درد نا ک لہجے میں حیا ت اور بعد حیا ت کے حا لا ت بیا ن کر تے تھے ۔جب وہ مر نے لگے تو انھو ں طبیب کو بتا یا اورکر خت آواز میں سر گو شی کی ’’ڈاکٹر دو سر ی دنیا کا راز تو اب کھلا ہے ‘‘کیا راز کھلا انھوں نے نہیں بتایا، لیکن ان کے نہ بتانے سے پرسرار یت اور بڑھ گئی ہے حضرت حسن بن صالح کا بیان ہے کہ میرے بھائی علی بن صالح کی وفات جس رات کو ہوئی اسی رات انہوں نے مجھ سے کہا ’’بھائی مجھے پانی پلاؤ‘‘میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا نماز سے فارغ ہو کر میں نے پانی پیش کیا مگر انہوں نے کہا‘‘ میں پانی پی چکا ہوں‘‘ میں نے دوبارہ پانی پینے کو کہا تو انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ ’’میں پانی پی چکا ہوں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’میرے اور آپ کے علاوہ کوئی تیسرا آدمی نہیں ہے پھر آپ کو پانی کس نے پلایا ہے‘‘ ؟؟؟بھائی نے جواب دیا ’’ابھی ابھی ایک نورانی فرشتہ آیا اور مجھے پانی پلانے کے بعد خوشخبری دی کہ تم تمھارا بھائی اور تمھاری والدہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر اللہ تعالی نے اپنا انعام کیا ‘‘[ابن سندہ وغیرہ]حضرت عبدالرحمن بن غنم اشعریؓ کی روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کا لڑکا طاعون عمواس کے مقام پر فوت ہو گیا اس کی وفات پر حضرت معاذؓ نے صبر و شکر سے کام لیا پھر جب حضرت معاذؓ کو ایک لڑائی میں کافروں کا نیزہ لگا اور وفات کا وقت قریب آیا
تو آ پ کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ’’ دوست اپنی ضرورت سے آ یا ہے وہ شخص کبھی کامیاب نہ ہو گا جو دوست کی حاجتُ پوری کرنے میں ندامت اور معذرت کرے ‘‘حضرت عبدالرحمنؓؓ کا بیا ن ہے کہ میں نے یہ عجیب جملہ سن کر حضرت معاذؓ سے دریافت کیا کہ’’ کیا آپ کو کچھ نظر آ رہا ہے‘‘؟ آ پ نے جواب دیا ’’جی ہاں ۔۔میں نے اپنے بیٹے کی وفات پر جس صبر سے کام لیا تھا اس کی اللہ تعالی کی طرف سے عزت افزائی ہوئی ہے میرے پاس اس وقت میرا بیٹا آ یا اس نے خوشخبری دی ہے کہ رسول اللہ اپنے ساتھ مقرب فرشتوں، شہدا اور صالحین کے ساتھ حضرت معاذؓ کی روح پر نماز پڑھیں گے اور پھر جنت میں لے جائیں گے حضرت معاذؓ یہاں تک گفتگو کر کے بہوش ہو گئے ہم نے دیکھا کہ و ہ بہوشی کے عالم میں کسی سے مصافہ کر کے کہہ رہے ہیں ’’مرحبا مرحبا‘‘ اتنا کہہ کر وہ دنیا سے رخصت ہو گئے[ ابن عساکر]آنحضرتﷺ سے روح کے بارے میں دریافت کیا گیاتو آپﷺ نے فرمایاکہ روح اللہ کا حکم ہے محترم مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اپنے ایک مضمون میں حیات بعد موت کے بارے میں لکھا ہے کہ موت کے بعد انسان ایک دوسرے جہاں میں پہنچ جاتا ہے جس کو عالم برزخ کہتے ہیں وہاں کے پورے حالات کا اس جہاں میں سمجھنا ممکن نہیں اس لیے نہ تو تما م کیفیات بتائی گئی ہیں اور نہ انسان اس کو معلوم کرنے کا مکلف ہے چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میت پہچانتی ہے کہ کون اسے غسل دیتا ہے اور کون اٹھاتا ہے کون اسے کفن پہناتا ہے اور کون قبر میں اتارتا ہے(مسنداحمد ،معجم اوسط ،طبرانی)روح کو دنیا میں گھومنے کی آزادی ہوتی ہے یا نہیں؟اس سلسلے میںیہ بیان کیا ہے کہ کفارو فجار کی روحیں سجین کے جیل میں مقید ہوتی ہیں ان کے کہیں آنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااصل بات یہ ہے کہ روح اپنے تصرفات کے لیے جسم کی محتاج ہے چنانچہ احاد یث میں انبیا ء کرام، صدیقین ،شہدا اور بعض صالحین کو مثالی جسم دینے کا ثبوت ملتا ہے۔خلاصہ یہ کہ جن اروا ح کو مرنے کے بعد مثالی جسم عطا کیا جاتا ہے وہ اگر باذن اللہ کہیں آجاتی ہوں تو اس کی نفی نہیں کی جاسکتی مثلا شبِ معراج میں انبیاء کرام کا آنحضرتﷺ کی اقتدا ء میں نماز ادا کرنے کے لیے بیت المقدس میں جمع ہونا ،شہیدوں کا جنت میں کھانا پینا،سیر کرنا وغیرہ عراق کا تاریخی واقعہ بھی ایمان کو تازہ کرنے اور نہایت حیرت انگیز ہے جب بیسویں صدی عیسوی میں سینکڑ وں لوگوں نے دو صحابہ کرام کی قبریں کھولیں تو ان کے مبارک جسم صحیح حالت میں موجود تھے اور ان کے چہروں پرنظر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھیں دفنائے ہوے چند گھنٹے ہوے ہیں حالانکہ وہ تقریبا چودہ سو سال پہلے دفن کیے گے تھے ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں ایک غیر معمولی چمک تھی وہاں موجود اشخاص میں سے کوئی
بھی ان سے آنکھیں ملانے کی ہمت نہیں کرتا تھا جرمن ماہر چشم یہ منظر دیکھ کر فورا مسلمان ہوگئے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کا ایما ن تازہ ہو گیا