تحریر: سلطان حسین
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج گذشتہ روز پاکستان کے دو روزہ دورے پرآئیں’ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد سے قبل بینکاک میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر جنجوعہ نے اپنے بھارتی ہم منصب اجیت ڈوال سے ملاقات کی تھی’ پاکستان اور بھارت کی جانب سے دیرینہ مسائل پر بات چیت کے لیے مذاکرات کے سلسلے کی بحالی کے اعلان کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔امریکہ نے بھی اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت کا عمل جاری رہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ رابطے حوصلہ افزا ہیں۔
۔امریکی محکم خارجہ کے ترجمان جان کربی نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ہم چاہتے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تنازعات مل کر حل کریں اور ان مسائل کا سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھیں جن کا انہیں تاحال سامنا ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب مسائل پر مذاکرات کا سلسلہ 1998 میں شروع ہوا تھا 1999 میں کارگل کی جنگ کے بعد یہ معطل ہو گئے تھے جس کے بعد 2004اور2005 میں مذاکرات کے ادوار ہوئے تھے لیکن 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پھر بہت کشیدہ ہو گئے تھے اور بات چیت کا سلسلہ بند ہو گیا تھا 2010 میں دوبارہ شروع ہونے والے مذاکرات 2012 میں ختم ہو گئے تھے یہ مذاکرات لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے بعد سے معطل ہیں ۔وزیراعظم نواز شریف کی اپنے بھارتی ہم منصب سے مئی 2014 کو دہلی میں ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات کے بعد تعلقات کو آگے بڑھانے کی بات تو ہوئی لیکن اسی بات کو دوبارہ دہرانے میں دونوں ملکوں کو 14 ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ اس سال جولائی میں روس کے شہر اوفا میں نواز اور مودی کی ایک اور ملاقات ہوئی لیکن اس کے بعد ہوا وہی جو اس سے پہلے ہوتا چلا آیا ہے۔ دونوں ممالک نے اب تعلقات میں بہتری کے لیے مذاکرات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے ساتھ بھارت نے اپنی افغانستان اور وہاں سے وسطی ایشیا تک پاکستان کے راستے رسائی کی خواہش کا اظہار بھی کر دیاجو یقیناََ پاکستان کے لیے پوراکرنا آسان نہیں ہوگا اس سے قبل بھی ماضی میں ایسے کئی مواقع آئے جب دونوں ہمسایوں نے اپنے رشتوں کو مضبوط کرنے کے عہد کیے لیکن یہ کبھی پورے نہیں ہو سکے۔
ان میں پہلے کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے معاملات خراب ہونے کا تاثر ملتا تھا پھر بات دہشت گردی کے مسئلے پر آ کر رک جاتی اور اب خطے میں بھارت کی معاشی میدان میں اثرو رسوخ بڑھانے کی خواہش ممکن ہے کہ اس راہ میں رکاوٹ بن جائے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو مذاکرات کی دوبارہ بحالی کا اعلان دونوں ملکوں کے عوام کے لیے ایک موہوم سی امید سے زیادہ کچھ نہیں۔دنیا اس کو جس نظر سے دیکھ رہی ہے وہ خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں یہی خوش فہمی مبصرین کو بھی ہے ۔اور بھارتی وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے پر مبصرین نے پھرسے ”برف پگھلانے” کا ٹھیکہ لے لیا پاک بھارتی رہنماؤں سے جب بھی کوئی ملاقات ہوتی ہے یا ایسے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو نام نہاد مبصرین اور تجزیہ نگاروں کو پھر برف کا خیال آتا ہے ۔
چاہے گرمی ہو یا سردی وہ برف ضرور پگھلانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں انہیں گرمی اور سردی سے کوئی ضرض نہیں ہوتی انہیں صرف اپنے تجزئیوں سے کیش کمانے کی فکر لگی رہتی ہے حالانکہ برف پگھلتی نہیںبلکہ وہ اوربھی جم جاتی ہے (دہلی میں یہ کچھ زیادہ ہی جمی رہتی ہے )ان مبصرین اور نام نہاد نامی گرمی تجزیہ نگاروں نے ابھی برف پگھلنے کی صرف امید یں ہی وابستہ کی ہوتی ہیں کہ بھارت ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے اور یہی مبصرین اور نام نہاد تجزیہ نگار پھر کشیدگی بڑھنے کے خدشات ظاہر کرنے لگتے ہیں ۔
معلوم نہیں ہمارے مبصرین ‘تجزیہ نگاروں اور حکمرانوں کی یہ کیوں کمزوری بن گئی کہ وہ کسی بھی بھارتی حکومت کی صرف بات چیت کے لیے آمادگی پر ہی خوش ہونے لگتے ہیںاور ان کی بانچھیں کھل جاتی ہیں یہ ایسی ہی خوشی ہوتی ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن سسرال سے روٹھ کر میکے چلی گئی ہو جس کے غم میں دولہا دوبلے ہوتے جارہے ہوں اور دولہن کی واپسی پر اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو یہی حال پاکستان کے حکمرانوں اور بیورو کریسی کا بھی ہے جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ان کی خوشی کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا اور ان کی یہ خوشی دیدنی ہوتی ہے وہ اس کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں اور اسے پاکستان کی فتح قرار دیتے ہیں حالانکہ جسے وہ پاکستان کی فتح قرار دیتے ہیں۔
وہ انہی کی وجہ سے پاکستان کی ناکامی ہی ہوتی ہے اندرون خانہ ان کی آپس میں کیا کچڑی پک رہی ہوتی ہے عام پاکستانی اس سے بے خبر ہے تاہم وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ بھارت کا نہ پہلے پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کرنے کا کوئی ارادہ تھا اور نہ اب ہے اور نہ آئندہ رہے گا پاک بھارت تنازعات حل کرنے کے لیے پاکستان نے کتنی ہی جدوجہد کی دنیا یہ جانتی ہے حتی کہ کئی بار تو بھارت کو خوش کرنے کے لیے اپنے قومی مفادات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا جیسا کہ اب بھی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی ایک بھی تنازعہ حل نہیں ہوا گذشتہ 65 سال کی پاک بھارت تاریخ اس کی گواہ ہے اگر میں غلط ہوں تو کوئی مجھے وہ تنازعہ بتا دے جو ان 65 سالوں میں حل ہوا ہو بلکہ حل بھی چھوڑیں اس میں کسی حد تک پیش رفت ہوئی ہو اور اس پر اب مزید پیش رفت ہونی ہو اب کی بار بھی جب بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئیں تو بڑی گرم جوشی سے ان کا خیر مقدم کیا گیا اسلام آباد میں بڑوں کی بانچھیں کھل گئیں جیسے سشماسوراج نہیں کوئی روٹھی ہوئی دلہن سسرال واپس آئی ہو ان کی آمد سے بڑی امیدیں پھر وابستہ کر لی گئیں ‘حکمران اسے اپنی کامیابی اور پاکستان کی فتح قرار دینے لگے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس بار بھی بھارت کو خوش کرنے کے لیے بنیادی تناعازت کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا تو پھر کامیابی اور فتح کس بات کی؟
کیا صرف مذاکرات پر آمادگی ہی کو کامیابی اور فتح قرار دیا جاسکتاہے اس سے قبل کتنی بار بھارت مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر چکا ہے لیکن پھر کیا ہوا ان مذاکرات کا ؟؟؟کیا حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں ؟ہر بار مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور پھر اسے یا تو بہانے بنا کر ملتوی کر دیا جاتا یا پھر مذاکرات سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے سشما سوراج نے پاکستان کا دورہ توکر لیا لیکن بڑوں کی یہ خوشی زیادہ مدت تک برقرار نہیں رہے گی اس خوشی کا بھانڈہ بھی جلد بیچ چوراہے میں پھوٹ جائے گا جہاں تک بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد اور بات چیت کا تعلق ہے تو اس بار بھی بازی بھارت کے حق میں ہی رہی پاکستان کے حق میں نہیں۔
پاکستان کے ہاتھ توکچھ نہیں آیا اس کے باوجود بھی ہمارے ” بڑے” خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں بھارتی وزیر خارجہ نے اسلام آباد آکر ممبئی حملوں کا ذکر کر دیا اور پاکستان کے بڑے اپنے ہی ملک میں ان کے سامنے نہ سمجھوتہ ایکسپریس کی بات کرسکے نہ کشمیر کے مسلے پر بات کی نہ سیاچین کا مسلہ اٹھاسکے نہ پاکستان کے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنے کاذکر ہوا نہ بلوچستان اور نہ ہی قبائلی علاقوں میں بھارتی مداخلت کی بات ہوئی جبکہ یہی بڑے گھر میں بڑے زور شور سے کہتے کہ اس بات کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے گا اور بھارت سے اس پر بات کی جائے گی لیکن عالمی سطح پر بات کرنا تو دور کی بات ہے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہی ۔
انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اوروہ بگھی بلی بن جاتے ہیںاگر بھارت پاکستان میں آکر ممبئی حملوں کا ذکر کر سکتا ہے تو پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس سانحے کا ذکر کیوں نہیں کرسکتا کیا کسی نے بڑوں کے منہ پر پھٹی باندھ رکھی ہے کیا پاکستانی حکمران اس بات کا قوم کو کوئی تسلی بخش جواب دے سکتے ہیں؟؟؟اس کے باوجود کہ بھارت کے دو اہم عہدداروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی ”را” نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے کی تھی ان کا یہ اعتراف جرم پاکستان کے لیے ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اس کو عالمی سطح پر اٹھاتے اور بھارت کے جھوٹ کا پول کھولتے اور پاکستان کو بدنام کرنے کی اس سازش کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے لیکن پاکستان کے حکمران ہوں یا فارن آفس کے بڑے کسی نے بھی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جس سے یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ ان کے دل میں بھارت کے لیے نرم گوشہ ضرور ہے یا پھر وہ اپنے مفادات کے اسیر ہیںیہاں ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ۔
ایک بچہ پانچ سال کا ہو گیا اور بولتا نہ تھا اس کے ماں باپ سخت پریشان تھے ایک دن ناشتے کے وقت بچے نے یکایک کہا ”یہ مجھے جلا ہوا توس کیوں دیا ہے ”خوشی کے مارے ماں باپ کے آنکھوں میں آنسو آگئے باپ بے اختیار بول اٹھے ”بیٹا تم بولنا جانتے ہو آخر اس سے پہلے تم نے کیوں کچھ نہ کہا ”بچے نے جواب دیا ”کیونکہ اس سے پہلے مجھے ناشتہ ٹھیک ملتا رہا”عام طور پر خیال یہی ہے کہ ہمارے کچھ لوگوں کو بھی” ناشتہ” ٹھیک ٹھاک مل رہا ہے اس لیے وہ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اورجب انہیں” ناشتہ ”ٹھیک نہیں ملتا تو وہ تھوڑا بہت کچھ بول لیتے ہیں شہریار خان اور نجم سیھٹی کی کھلی مثالیں تو ہمارے سامنے ہیں۔
تحریر: سلطان حسین