تحریر: میر افسرامان
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ زرداری صاحب کی کرپشن بچاتے بچاتے پیپلز پارٹی ٢٠١٣ء کا مرکزی الیکشن ہار گئی تھی اور اب زرداری کے دست راز ڈکٹر عاصم صاحب کو بچانے کی پالیسی سے سندھ میں ٢٠١٨ء الیکشن میں بھی ہار جانے کے اسباب پیدا کر رہی ہے اور سیاسی دنیا میں اپنا نام بھی بدنام کر رہی ہے۔ بے نظیر صاحبہ کی چارٹر ڈ آف ڈیموکریسی اور زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی نے مرکز میںپانچ سال حکومت کر کے پُر امن طور پر حکومت نواز لیگ کے حوالے کی تھی۔ اس سارے عرصے میں نواز لیگ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی جس سے پیپلز پارٹی کو تقویت پہنچی تھی جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوا تھا۔سوئس بنک جہاں زردار ی کے بے تحاشہ اثاثے موجود تھے اور اب بھی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سوئس حکومت کو جھوٹے خط لکھ کر کیس کو کمزور کیا تھا۔نواز لیگ کے شہباز شریف نے کہا تھے کہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹ کر کرپشن کے پیسے واپس پاکستان کے خزانے میں جمع کرائیں گے مگر سب کچھ زبانی جمع خرچ تھا۔زرداری سارے کے سارے مقدمے ایک ایک کرکے ختم ہوتے گئے۔ یہ تو بھلا ہو سابق نڈر چیف جسٹس صاحب کہ جس نے این آر او کو قانونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے منسوخ کر دیا جس سے سارے مقدمات کھل گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ کراچی بدامنی کے حالات پر سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے مجروں کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے اور سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ ختم کئے جائیں۔ زرداری نے اپنی کرپشن کو چھپانے کے لیے استثنا کے قانون کو استعمال کیا گیا تھا جبکہ عام رائے تھی کہ یہ قانون کرپشن میں تو استعمال نہیں ہونا چاہے تھا۔ مقدمات کو عدالتی نظام کی کمزرویوں سے فائدہ اُٹھا کر اتنا لمبا کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام زرداری کی کرپشن بھول گئے تھے ۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کرپشن کے متعلق جو کچھ بھی ریکارڈ باقی رہ گیا تھا اس کا نام نشان تک مٹا دیا گیا تھا نیب نے ابھی حال میں ہی زرداری کا کرپشن کا مقدمہ یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ فوٹو اسٹیٹ پر کرپشن کے مقدمے کا فیصلہ نہیں کر سکتے اصل ریکارڈ ہو توملے بلکہ نیب کو ریکارڈ ضائع کرنے کا مقدمہ بھی قائم کرنا چاہیے تھا۔ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سندھ حکومت نے بھی ڈاکٹرعاصم کے مقدمے کو ٹال مٹول کر کے خراب کرنے کی بھونڈی کوشش کی۔ پہلے کراچی ٹارگیٹڈ آپریشن کی حمایت کی گئی جب رینجرز نے نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکاتی ایجنڈے کے تحت دہشت گردوں کے سہلت کار وں کے خلاف کاروائی کی جس میں پیپلز پارٹی کے لوگ گرفتار ہوئے تو رینجرز کے اختیارات کو بھی سلب کر لیا گیا اور کہا کہ کرپشن میں ملوث کسی فرد کے خلاف کاروائی کرنے سے پہلے رینجرز سندھ کے وزیر اعلی سے تحریری اجازت لے تب گرفتار کرے اس طرح تو کرپٹ افراد بھا گ جائیں گے جیسے کچھ ملک چھوڑ بھی گئے۔
ٹال مٹول کے عرصے کے دوران پیپلز پارٹی نے حسب عادت مقتدر حلقوں سے مفاہمت کی کوشش بھی کی اور اعلان کیا گیا کہ زرداری بے نظیر کے حوالے سے تقریب میں خطاب کرنے پاکستان واپس آئیں گے مگر مفاہمت کی پالیس کارگر نہیں ہوئی اور نجی ٹی وی کے مطابق اب آنے کا پروگرام بھی کینسل ہو گیا ہے ایک ٹی وی پروگرام میں سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ نواز شریف صاحب نے بھی اس میں کوشش کی تھی مگر مقتدر حلقے نہیں مانے۔ انتہائی کو شش کے باوجود سندھ حکومت بھی ڈاکٹر عاصم کے دہشت گردوں کے علاج اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے مقدمے کو خراب نہ کر سکی۔ دیدہ دلیری دیکھیں کہ ایک نہیں دو تفتیشی افسروں کو تبدیل کیا گیا تفتیشی افسر نے ڈاکٹرعاصم کو اپنی رپورٹ میں سرے سے بری کر دیا تھا۔سندھ رینجرز نے عدالت سے رجوع کیا اور انسدا دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے منتظم جج صاحب نے تفتیشی افسر کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے انہیں حراست میں لے کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔عدالتی فیصلے کے مطابق اب ڈاکٹر عاصم کے خلاف کرپشن اور دہشت گردی کیسز ایک ساتھ چلیں گے۔یہ دہشت گردی کو سہلولت کے تحت مقدمہ چلے گا۔صابق صدر آصف زرداری کے قریبی دوست جن کی ہسپتال میں اپنی اسیری کے دن آرام سے گزارے تھے جنہیں بعد میں اسی خدمت کے عوض وزیر پٹرولیم بنایا تھا اور دیگر غیر قانونی مراعات کی بارش کر دی تھی جس پر اب ڈاکٹرعاصم قانون کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں۔
جس سرے محل کا ذکر پریس کی زینت بنا ہوا تھا اُس کے پیپلز پارٹی کی قیادت نے کہاتھا وہ ہمارا نہیں ہے۔زرداری صاحب تو وعدہ جھوٹ کو قرآن اور حدیث تو نہیں کہتے ہوئے سنے گئے تھے مگر بے نظیر صاحبہ بھی اس کا انکارکرتی رہی تھیں۔ حسن اتفاق کہ ایک دن سرے محل میں چوری کی خبر لکھی تو پاکستانی عوام کو پتہ چلا کہ یہ سرے محل زرداری نے پاکستانی عوام کے پیسوں میں خیانت کر کے خریدا تھا۔ایک اور اتفاق ہوا کہ اُس سرے محل کی آرائش و تیزین کے لیے قیمتی اشیاء پاکستان سے اسمگل کر کے سرے محل میں پہنچائی گئیں تھیں ان کاغذات کوٹکانے لگانے کے لیے برطانیہ میں پاکستان کے حمایتی سفیر صاحب اپنی چستی دیکھاتے ہوئے گاڑی میںلوڈ کرتے ہوئے پہلے الیکٹرونگ اور پھر پاکستان کے پرنٹ میڈیا پر دکھائے گئے تو بات روز روشن کی طرح صاف گئی دودھ دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ صاحبو! بات یہیں تک نہیں روکتی ۔پیپلز پارٹی کے صدر پوری دنیا میںمسٹرٹن پر سنٹ سے بڑھ کر مسٹرہنڈرٹ پرسنٹ مشہور ہوئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظم صاحبان میں سے ایک راجہ رینٹل مشہور ہوئے اور دوسرے وزیر اعظم کرپشن کے علاوہ ایک سنگین غلطی کی کہ مصیبت کی ماری پاکستانی عوام کو پاکستان کے دوست ملک ترکی کی خاتون اول نے اپنا قیمتی ہار امداد کی مدمیں دے دیا تھا وہ اسے لے اُڑے تھے۔ کافی لے دے کے بعد کہا کہ وہ میری بہن نے مجھے تحفہ دیا تھا بعد میں اس قیمتی ہار کو خزانے میں داخل کیا گیا۔پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں کبھی بھی یہ نہ سوچنے کی کوشش کی کہ پاکستان کے کسی ادارے میں کتنے ملازم رکھنے کی صلاحیت ہے۔بے دریخ اپنے کارکنوں کو قانونی جواز کے بغیر بھرتی کیا جس کی وجہ سے پاکستان ادارے تباہی کے دھانے پہنچ چکے ہیںپیپلز پارٹی کے دور میں جتنے بھی ترقیاتی پروگرام شروع کئے گئے ان میں سے پیشر کرپشن کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکے مگر آج پیپلز پارٹی کا ریکارڈ ہے کہ اپنے ماتحت حکومتی اہل کاروں سے باز پرس تک نہیں کی ۔
اب جب سندھ میں کرپشن میں لوگ پکڑے جا رہے ہے سب کے سب کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کے پیسے میں غالب حصہ زرداری کو ادا کیا جاتا رہا ہے۔اب تجزیہ کار اس نکتہ پر پہنچ چکے ہیں کہ زرداری نے کرپشن کی انتہا کر دی ہے اس لیے مقتدر حلقوںنے بھی اُن کی ایک نہ سنی۔ کرپشن میں تو شاید وہ پہلے کی طرح بچ جاتے مگر رینجرز نے دہشت گردوں کے سہولت کار ہونے پر تو کسی کو بھی نہیں چھوڑا جاسکتا یہی کام اب قوم نے دہشت گردی ایکٹ کے تحت قانون کے مطابق بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج کو اختیارات دیے گئے ہیں اس کے تحت پورے ملک میں ضرب عضب اور کراچی میں ٹار گیٹڈ آپریشن جاری ہے جس ملک میں کافی حد تک دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے جس کو پوری قوم تسلیم کر رہی ہے کہ کراچی کی روشنیاں واپس لوٹ آئیں ہیں کاروبار ہو رہا ہے۔ اب اگر اس قانون کی زد میں پیپلز پارٹی کے ایک فرد جوزرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم آ گئے ہیں تو ملک کی عدالتیں موجود ہیں ان سے رجوع کرنے کے بجائے بھونڈے طریقے سے ان کو رہا کرنے کی کوشش کی گئی کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ زرداری کی کرپشن کی بچاتے بچاتے پیپلز پارٹی پہلے مرکزی حکومت میں ہار گئی تھی ۔
اب کیا ڈاکٹر عاصم کی کرپشن کو بچانے کے لیے سندھ میں اپنے ہارنے کے اسباب پیدا نہیں کر رہی؟ اس کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت نے آئین کے مطابق سندھ میں دہشت گردی ایکٹ کے مطابق سندھ اسمبلی کی ر ینجرز کے اختیارات کم کرنے والی قرارداد کو منسوخ کرنے اورینجرز کو پہلے والے اختیارات کی چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے اب رینجرز کھل کر دہشت گردی میںسہولت کاروں کو گرفتار کرکے قانون کے حوالے کرنے میں آزاد ہیں ۔ سندھ پولیس کے چیف کے خلاف عدالت نے فرد جرم لگا دی ہے کیا سندھ حکومت ان کو مقدمات کے فیصلہ تک اُنہیں عہدے سے ہٹا نہیں دیا چاہیے؟ عوام ، کراچی کے تاجراور ساری سیاسی پار ٹیاں رینجرز کو ٹارگیٹڈ آپریشن کی حمایت کر چکے ہیں۔تجزیہ کار پیپلز پارٹی کو مشورہ دیں کہ اب پرانا زمانہ نہیں رہا۔ دکھوں کی ماری پاکستانی قوم کے ٹیکسوں کو بری طرح ناجائز استعمال کرنے سے لوگ یک جان ہو گئے ہیں اس لیے ان کو اپنا رویہ تبدیل کر لینا چاہیے ۔ ایک فرد کو بچانے کے لیے غیر قانونی حرکات نہیں کرنی چاہیے۔ورنہ مکافات عمل کے لیے تیار ہو جائیں۔
تحریر: میر افسرامان