تحریر: انجینئر افتخار چودھری
اور جہانگیر ترین جیت گئے سو دو سو سے نہیں ہزاروں وٹوں سے انہوں نے صدیق بلوچ کی ٹھکائی کی سردیوں کی ان راتوں میں سینک کرتے ہوئے بھی اینٹوں کا بھٹہ درکار ہو گا۔٢٠١٣ کے بعد عمران خا ن کاگراف تیزی سے گرنے کا واویلا پیٹا گیا نام نہاد دانشور جو ٹکے ٹنڈ بکتے ہیں روز رات کو سیاست کے قحبہ خانوں میں اپنی دانش کا ٹوکرا لے کر بیٹھ جاتے تھے ٹاک شو ڈاگ شو کا روپ دھار لیتے وہ اپنی علم و دانش گری کی سرخی کو چہروں پر سجا کر اگلے دن کل والی دیہاڑی مانگنے پرویز رشید ایجینسی پر پہنچ جاتے۔
عمران خان بد تہذیب ہے اکھڑ ہے اسے بولنا نہیں آتا اسے تولنا نہیں آتا اسے کہیں زبان درست کر لے لہجہ صیح کرے۔یہ تھے ان کے فرمودات۔ عمران نے اسی اکھڑ لہجے کے ساتھ عمر گزار دی اب اس عمر میں وہ خاک بدلے گا۔اس کے مقابل میں بنیوں جیسے کاروباری دیکھیں ان کے لہجے دیکھیں ان کی کوثر و تسنیم میں دھلی زبانیں دیکھیں۔لکھنوی انداز بیان مگر لوٹ کے کھا گئے پی گئے جیسے ماں کا دودھ ہو۔باہر کے ملکوں کی تجوریاں بھرنے والے حرام خور سانڈ۔ وارث شاہ اوتھے اک اکدے جتھے عاشقاں جوترا لایا اے افتخار چودھری کی بوئی ہوئی کھیتی میں تمبے ہی اگے گیں۔
یہ ہماری پاک و پوتر عدلیہ اس کے جج جوڈیشنل کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور ان کی صفوں میں سارے لوگ جو رات کے آخری پہر میں افتخار چودھری کے لئے عدالت پہنچ گئے کیا وہ افتخار چودھری کی عمران خان کے ہاتھوں مٹی پلید ہوتا برداشت کر سکتے تھے مت ماری گئی تھی تحریک انصاف کی جو ان سے انصاف مانگنے ایک طلب گار کی حیثیت سے پہنچ گئی تھی۔ٹھٹھ ملنا تھا مل گیا۔بے ضابطگیاں دھاندلی کا مفہوم نہ پا سکیں۔ اس کمیشن کے سامنے عمران خان کھڑا تھا بار بار کہہ رہا تھا مجھے لگتا ہے پاکستان بدلنے والا ہے۔
جج نے عمران خان سے پوچھا دیکھو خان کمرہ عدالت میں بکری ہمارے سامنے ہے میں دیکھ رہا ہوں یہ بکری ہے یہ میرا ردلی دیکھ رہا ہے میں دیکھ رہاہوںریڈر دربان سب دیکھ رہے ہیں کہ یہ بکری ہے خود بکری کہہ رہی ہے بئے بئے میں بکری ہوں تم بھی اسے دیکھ رہے ہو یہ بکری ہے لیکن سوال یہ ہے ثابت کرو کہ یہ بکری ہے۔عمران خان اس وقت ثابت نہ کر سکا ۔اس نے لودھراں کے الیکشن میں ثابت کیا کہ بکری کون ہے۔اس نے جہانگیر ترین کے ہاتھوں صدیق بلوچ کو عبرت ناک شکست دلوا کر ثابت کیا کہ جج صاحب چار حلقے اگر آپ اس وقت کھول دیتے تو خود آپ کو پتہ چل جاتا کہ بکری کدھر ہے؟اس ملک کہ منصفو!ایک وہ بھی منصف ہے جو آپ کو ڈھیل دے رہا ہے۔
بکریاں تو بتاتی ہیں کہ ہاں میں ہوں سنو سمجھو اور فیصلے اللہ سے ڈر کے کرو۔ صرف بلے کے ساتھ بلے باز کا نشان دینے والو تمہاری آئیندہ آنے والی نسلیں بھی شرمندگی کا طوق اٹھائے پھریں گی کہ ہم اس پردادا کی اولاد ہیں جس نے یہ نشان دئے تھے ۔کس کے پاس پیسہ ہو گا جو جہانگیر ترین بن کر انصاف خریدے گا؟بھاڑ میں جائے یہ نظام جس میں ایک عام آدمی الیکشن نہ لڑ پائے انصاف تک اسے رسائی نہ ہو۔لوگ جہانگیر ترین کو مبارک دے رہے ہیں اس کی انگلیاں وی بنا رہی ہیں علیم خان ساتھ ہے۔
میں پریشان ہوں اس ملک میں کوئی ڈاکٹر نذیر الیکشن نہیں لڑ سکتا،کوئی فقیر اس ملاکھڑے میں شریک نہیں ہو سکتا۔جو لوگ پارٹی ٹکٹ کے پچاس ہزار بھی نہ دے سکیں میں ان کی بات کرتا ہوں۔٨٠ فی صد تو یہ پچاس ہزار نہیں دے سکتے۔الیکشن ٹریبیونل کے خرچے کون دے گا۔یاد رکھئے ٩٠ فی صد لوگ ہار مان کر گھر بیٹھ جاتے ہیں اس لئے کہ ان منصفوں کے سامنے کھڑی ہوئی بکری کو ثابت کرنے کے لئے علیم خان اور جہانگیر ترین ہونا ضروری ہے۔ اس نظام میں رہ کر تبدیلی کیسے آئے گی؟خاموش ہو جا بکری کو بکری ثابت کرنا کوئی خالہ جی دی واڑہ نئیں۔دڑ وٹ زمانہ کٹ۔اس نظام میں کوئی امیر ترین ہی اسمبلی میں جا سکتا ہے ماتڑ نہیں۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری