تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
وفاق نے دو ماہ کے اختیارات کے ساتھ رینجرز کے مکمل اختیارات بحال کرنے کے ساتھ رینجرزکو اختیارات کے استعمال کے سلسلے میں سندھ حکومت کی بھیجی گئی کو سمری مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ رینجرز مرکز کے آئینی اختیارات کے تحت دہشت گردوں اور معاشی دہشت گر دوں کے خلاف اپنا آپریشن اسی طرح جا ری رکھے۔دوسری جانب سندھ حکومت اُس فرد کو جس نے ملک کے خزانے کوحاکم علی کا خزانہ سمجھ کر جی بھر کے لوٹا اور موقعہ ہاتھ آتے ہی یہ جا وہ جا!!ایسے فرد کی خاطر سندھی حکومت کی حکمت نے اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر پنگے لینے کی کوشش کی ۔مگربد قسمتی سے سندھ حکومت کی یہ ہے کہ عدالت نے زرداری کے فرنٹ مین ڈاکٹر عاصم کو 30دسمبر تک کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔تاکہ ان کے مزید کس بل نکل جائیں۔
اب کیا تھا سندھ حکومت اور اس کے بڑے بڑے حمائتی لگے حکومت کی نا اہلیاں گنوانے۔پیپلز پارٹی کی تڑیاںبھی اس دوران عروج پر دیکھی گیئں۔اختیارات کے غیر آئنی الزاما ت کے ضمن میں ان کا یہ کہنا ہے کہ مرکزغیر آئینی رکاوٹیں لگا رہا ہے۔جبکہ آئنی ما ہرین کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت مرکز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صوبائی حکومت پر یہ پابندیاں لگا سکتا ہے۔وزیرِاعلیٰ سندھ کی یہ کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائم مقام سربراہ آصف علی زرداری جو بھی صحیح یا غلط بات کر جائیں اس کا ہر قیمت پر دفاع کرنا ہے۔
اس حوالے سے حکومتِ سندھ اور اس کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ” مخالفین کی چیخ و پکار سمجھ سے بالا تر ہے” موصوف کا یہ بھی فرمانا ہے کہ 40 برس سے خدمت کر رہے ہیں۔عوام کے لئے ان کی خدمت کا گراف تو ماضی کی حکومت میں بخوبی دیکھا گیا اور حالیہ کے سالوں میںبھی کوئی قابلِ تحسین نہیں رہا بلکہ لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ موجودہ سندھ حکومت عوام کے لئے تو کچھ کر سکی ہویا نہ کرسکی ہو، مگر حاکم علی کے بیٹے کی لئے کیلئے تو سندھی حکومت آپے سے باہر ہوئی جا رہی ہے۔ انہوں نے اپنے سات سالہ دورِ اقتدار میں نااہلیوں کی انتہا کردی ہے۔اور دہشت گردی کم ہونے کے بجائے اس دوران تیزی کے ساتھ اپنے عروج منزلیں چھوتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔
سائیں سرکار کا فرمان ہے کہ کراچی میںامن و امان کا مسئلہ حل کر دیا؟ہم سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ نا جانے ان کی اس سے کیا مراد ہے کہ کچھ سیاسی یتیم رینجرز کے معاملے پر خوامخواہ واویلا کر رہے ہیں…. لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی یتیم تو دوبئی میں بیٹھے کھیا پیا ہضم کیا پکڑائی نہ دی کے مقولے کے تحت دوبئی کو ہی سندھ کا داراحکومت بنائے بیٹھے ہیں۔
جو سندھ کا پیسہ ہوٹلوں اور ہوائی جہازوںکے کرایوں میں اُڑا رہے لوگ ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہے جو 40 سال پہلے پھکڑ خاندان سے تعلق رکھتے تھے وہ نئی سرمایہ دار کلاس انہوں نے ضرور پیدا کر کے پاکستان کے لُٹیروں میں اضافہ کر دکھایا ہے۔جو اپنی قائد کی برسی پر وطنِ عزیز میں داخل اس لئے نہیں ہو رہے ہیں کہ کہیں دوبئی واپس جانا محال نہ ہو جائے۔ جس پر طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا لیا گیا ہے۔کوئی پوچھے کہ گذشتہ اور موجودہ پیپلز پارٹی کے ادوار نے سندھ کے شہریوں کو سوائے بے روزگاری، دہشت گردی او ر لوٹ مار کے کیا دیا ہے؟کیا خوبصور پیپلز پارٹی کی چالیس سالہ تاریخ ہے؟ کوئی بتائے کہ ہم بتائیںْ؟یہ ہی تو پیپلز پارٹی کا انوکھا اسٹائل ہے….جس پر جیالہ کلچر واری واری جاتا ہے۔
ڈاکٹر عاصم کے وائٹ کولر ہونے کی وجہ سے یہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم تک کسی کو پہنچنے کی ہر گز جراء ت نہ ہوگی۔مگر شومیِ قسمت کہ ڈاکٹر عاصم نے ہی جے آئی ٹی کے روبرو سب کچھ اُگل کر اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کو ساری قوم کے سامنے بے نقاب کر کے رکھ دیا۔پیپلز پارٹی کے قائم علی شاہ نے اپنی بساط سے بڑھ کر زور توبہت لگایا مگر انکی پوترتا پر پھر بھی داغ لگ ہی گیا۔جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اپنی رپورٹ میں واضح لفظوں کہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی عاصم حسین کے ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے۔رینجرز کا کہنا ہے کہ اس میں غیر قانونی طور پر زمینوں کا حصول ،تین درجن سے زیادہ غیر ملکی کمپنیوں کا حصول ان میں 95 فیصد معاملات پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت کے دوران کئے گئے۔
محکمہ دہشت گردی سندھ (ایس بی ٹی)کے پولیس کی انویسٹی گیشن کی اسپیشل برانچ ،نے ڈاکٹر عاصم کو بلیک کیٹگری میں رکھا ہے۔اس کے علاوہ رینجرز انٹیل جینس،ملٹری انٹیل جینس(ایم آئی) اور آئی ایس آئی کا بھی یہ ہی موقف ڈاکٹر عاصم اور ان کے بوس کے بارے میں تھا۔ مگرعدالت کے روبرو یہ بڑی عجیب بات ہوئی کہ سندھ پولیس کے ہی ایس ایس پی جنوبی نے ڈاکٹر عاصم کی جے آئی ٹی رپورٹ کو( جسکا حکم سندھ گورنمنٹ نے 5 نومبر 2015 کو دیا)اور جس کا عنوان تھا کہ کریمنل ہسٹری/ قریبی تعلقات اور غیر قانونی سلوک /ایم کیو ایم کے لیڈرز اور ٹاگیٹیڈ کلرز کا اختتام اس پیرا گراف میں کہا گیا کہ پی پی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب بہتان ہے۔
ایسے الزامات ماضی میں بھی پی پی پر لگتے رہے ہیں اور یہ سب الزامات غلط ثابت ہوے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں عدالتی فیصلے پر مایوسی کا اظہار سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے کرتے ہوے کہا کہ سندھ حکومت کیس میں مداخلت کرتی تو نتائج کچھ اور ہی ہوتے اور یہ فیصلہ جو ہمارے خلاف آیا ہے نہ ہوتا!!!ایک اہم بات پیپلز پارٹی کی سبکی کی یہ بنی کہ سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عاصم کیس میں تفتیشی آفیسر کی تبدیل کے خلاف درخوست پر سندھ حکومت کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین ،ایڈوکیٹ جنرل سندھ و دیگر کے نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔جس سے پیپلز پارٹی کے حمائتی بوکھلاہت کا شکار ہو چکے ہیں۔
سینٹ ہو یا قومی اسمبلی ہر فورم پر پیپلز پارٹی کی قیادت ایک عجیب پریشانی کا شکار ہودکھائی دیتی ہے۔اس کیفیت میں پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وفاق نے رینجرز اختیارات پر تحفظات کا ازالہ نہ کیا تو عدالت جائیں گے۔وفاق کے اقداما سندھ کے امور میں مداخلت اور خلاف، آئین ہیں وزیرِ اعلیٰ رینجرز امور پر وزیرِ اعظم کو اپنا موقف دیں گے۔جن سے امن و امان سے متعلقہ فیصلوں میں صوبے کواعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ئوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینجرز کے اختیارات صوبائی خود مختاری پر حملہ ہے۔حکومتِ سندھ اپنے اختیارات سے دست بردار نہیں ہوگی۔
حکومتِ سندھ نے وفاق کو اپنے جواب برئے جواب میںصاف الفاط میں کہہ دیا ہے کہ رینجرز اختیارات کے سلسلے میں آپ کی ہدایت پر عمل درآمد نہیں کر سکتے ہیں۔دوسری جانب آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ وفاق نے سندھ پر حملہ کر کے آئین کو پامال کر دیا ہے۔اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو قوم عدم استحکام اور بے یقینی کی دلدل میں پھنس کر رہ جائے گی۔اس سے قبل پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مرکز کا یہ حملہ پورس کے ہاتھیوں کا حملہ ثابت ہوگا۔غرض یہ کہ مرکزی حکومت کو پیپلز پارٹی کا ہر حمائتی طرح طرح کی دھمکیاں دینے پر اتر آیا ہے۔ جس کی وجہ صرف یہ ہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے بڑوں کی کرپشن پر پردہ ڈالدیا جائے ۔ہم سجھتے ہیں کہ فی الوقت تو ایسا ہوناممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔
اس ضمن میں مبصرین کا خیال ہے کہ یہ رینجرزاور پیپلز پارٹی دونوں ہی کے لئییہ معاملہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔یہاں یہ بات بھی اہمیت اختیار کر چکی ہے کہ ڈاکٹر عاصم کیس نے سیاست زدہ پولیس اور استغاثہ کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔کیونکہ حکومت سندھ کے دبائو کی وجہ سے پولیس انویسٹی گیشن افسر نے ڈاکٹر عاصم کو عدالت کے روبروکیس میں کلین چیٹ دینے کی بھر پور کوشش تو کی۔ مگرجے آئی ٹی رپورٹ کے سامنے ان کی تمام کوششیں بائونس ہوکر ان کے فائدے کی بجائے نقصانات کا سبب بن رہی ہیں۔جو حکومتِ سندھ کے لئے بے پناہ سُبکیوں کا باعث بن رہا ہے۔اوپر بیان کردہ تمام حقائق کو فراموش کر کے وزیرِ اعلیٰ سندھ اس کے باوجودڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ مخالفین کا واویلا ان کی سمجھ سے بالا تر ہے،ہائے اس زود پشیمان کا پشیماء ہونا۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com