تحریر : محمد شاہد محمود
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اچانک پاکستان آمد نے سب کو حیران و پریشان کر دیا ۔محب وطن پاکستانیوں نے بابری مسجد،سانحہ احمد آباد،گجرات کے ملز م مودی کی پاکستان آمد پر احتجاج کیا لیکن پاکستانی قوم کے وزیراعظم میاں نواز شریف مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایسے چل رہے تھے جیسے اپنے برسوں سے بچھڑے بھائی سے مل رہے ہوں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے لاہور ائر پورٹ پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا استقبال کرتے ہوئے کہا ”آخر کار آپ آ گئے” مودی نے جواب میں کہا ”جی ہاں بالکل آ گئے”۔ مودی کے دورہ لاہور کے دوران پاکستانی ہم منصب نواز شریف کی والدہ کی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان امن کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف، شہباز شریف اور فیملی کے دیگر ارکان موجود تھے۔ نوازشریف کی والدہ نے نریندر مودی کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور ان کے سامنے دونوں ممالک کے درمیان پرامن ماحول کی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نواز شریف کی والدہ نے نریندر مودی سے کہا کہ ہمیں مل جل کر رہنا چاہئے۔ یہی دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہے جس پر نریندر مودی مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ دیکھیں ہم اکٹھے ہیں ہمارے درمیان کوئی دوری نہیں۔ مودی نے نواز شریف کی والدہ کے پائوں چھوئے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آمد پاکستان میں منحوس ثابت تو نہیں ہوں گئے؟ سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑگئی ہے۔مودی جہاں بھی جاتا ہے وہیں کوئی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، یورپ میں سبز قدم پڑتے ہی پیرس میں قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ آسٹریلیا، کینیڈا، نیپال، چین جرمنی وہ جہاں بھی گئے کوئی نہ کوئی نحوست ہی لے کر گئے سب سے پہلے نریندر مودی آسڑیلیا گئے تو وہاں کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ کو خود ان کی پارٹی نے کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا، کینیڈا میں سٹیفن ہارپر دس سال سے وزیراعظم تھے لیکن مودی کے وہاں قدم رکھتے ہی ان کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ نیپال گئے تو وزیراعظم سوشیل کمار کی چھٹی کرادی، وہ پاکستان آئے تو پاکستان، بھارت اور کابل تینوں میں زلزلہ آیا۔بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی پاک بھارت تعلقات کی68سالہ تاریخ کے چوتھے وزیراعظم ہیں جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا جبکہ 14وزرائے اعظم میں سے 10کبھی پاکستان نہیں آئے۔پہلے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اس حوالے سے ابھی تک پہلے نمبر پر ہیں جنہوں نے دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔
نہرو 1953اور 1960میں پاکستان آئے۔ راجیو گاندھی نے 1988 میں پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا اور اٹل بہاری واجپائی نے 1999 میں پاکستان کا دورہ کیا۔جو وزرائے اعظم کبھی بھی پاکستان نہیں آئے ان میں گلزاری لال نندہ، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، مرارجی ڈیسائی، چرن سنگھ، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، نرسمہاراو، دیوی گوڑا،آئی کے گجرال اور من موہن سنگھ شامل ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ بھارت کے 19ماہ بعد پاکستان پہنچے جبکہ نریندر مودی نے اٹل بہاری واجپائی کے بعد11سال 11ماہ اور 20 دن بعد پاکستان کا دورہ کیا۔ نریندر مودی اور نواز شریف پہلے بھارتی وزیر اعظم ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کی رہائش گاہ کا بھی دورہ کیا۔1953میں جواہر لعل نہرو پہلے بھارتی وزیر اعظم تھے جنہوں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا، وہ کراچی میں اترے اور پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی۔ 1960میں جواہر لعل نہرو نے پاکستان کا دوبارہ دورہ کیا اور سندھ طاس معاہدے پر دستخظ کیے۔28سال بعد 1988میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی پاکستان آئے اور چوتھی سارک کانفرنس میں شرکت کی۔ 1989میں راجیو گاندھی نے دوبارہ پاکستان کا دورہ کیا جس کے بعد 1999میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے دورہ پر آئے اور لاہور سے دہلی بس سروس کا افتتاح کیا۔
2004میں اٹل بہاری واجپائی ،اسلام آباد میں 19ویں سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے دوبارہ پاکستان آئے تھے۔بھارتی وزیراعظم کے دورہ پاکستان اور وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کو جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور جماعة الدعوة نے اْسے شہدائے کشمیر کے خون سے بیوفائی قرار دیا ہے۔چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہاکہ کاش پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات بہتر ہوں، لیکن جب تک ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم مودی سمیت انکی جماعت کی سوچ تبدیل نہیں ہوتی تب تک پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقاتیں مثبت نہیں ہوسکتیں۔ نوازشریف اور نریندر مودی کی ملاقات صرف سفارتی تعلقات کا حصہ ہیں۔ امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم کا دورہ پاکستان کشمیری و پاکستانی قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ملکی وقومی مفادات کو نریندر مودی سے ذاتی دوستی پر قربان کیا جا رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے دن پشاور میں معصوم بچوں کا خون بہانے والوں کا پْرتپاک استقبال پاکستانی قوم برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کشمیری قوم سوال کررہی ہے کہ کیا ذاتی دوستی پر کشمیر کو قربان کردیا جائیگا؟ دہشت گردی میں شہید پاکستانیوں کے لواحقین بھی سخت تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف مظلوم کشمیریوں اور پاکستانی قوم میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔
جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا کہ نریندر مودی نوازشریف ملاقات اتفاقیہ، بلکہ اس ملاقات پر اتفاق تھا لیکن غالباً نوازشریف کو ملاقات کے حوالے سے کسی اور شریف سے خطرہ ہے، اس ملاقات میں منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ ملاقات کاروباری اور خاندانی تعلقات کے بہتر ی کے حوالے سے ہیں نہ کہ ریاست اور خطے کیلئے انہوںنے کہاکہ جب تک مسئلہ کشمیر کے اصل تنازعہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار امن اور دوستی دیوانے کا خواب ہوسکتا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پہلے تو مودی کے دورہ کا خیر مقدم کیا پھر کہا کہ نوازشریف کے بزنس پارٹنر کو مودی کے دورے کا بندوبست نہیں کرنا چاہئے تھا۔ نریندر مودی کے دورے کا بندوبست وزارت خارجہ کا کام تھا۔ یہ کوئی ذاتی دوستی نہیں تھی کہ مودی پاکستان آگئے۔ مودی کو دورہ پاکستان کی دعوت میں نے بھی دی تھی، بات چیت تو بڑی اچھی چیز ہے۔ بزنس پارٹنر نے کھٹمنڈو میں ملاقات کرائی تھی۔
لوہے کے بزنس پارٹنر جندال نے پھر میٹنگ کرا دی۔ یہ کوئی بادشاہت نہیں کہ اس طرح ملیں۔پاکستان مسلم لیگ ق کے صدر و سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نے میاں نواز شریف سے ملاقات سے محض دو گھنٹے قبل افغانستان میں پاکستان کیخلاف زہر اگلا۔ کاش نواز شریف اپنی سالگرہ سے پہلے نریندر مودی سے قائد اعظم کی سالگرہ کا کیک بھی کٹواتے۔ اس ملاقات کو مثبت بنانے کیلئے ضروری ہے کہ بھارت اپنے موجودہ طرز عمل میں تبدیلی لاکر کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر فائرنگ کا سلسلہ بند کر ے اور کراچی ، بلوچستان ، فاٹا میں اپنی ایجنسیوں کے ذریعے مداخلت کا سلسلہ بند کر دے۔
تحریر : محمد شاہد محمود