تحریر : محمد آصف اقبال
تازہ خبر کے مطابق مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی دستے، اینٹی ٹیرارزم اسکواڈ نے سمجھا جاتا ہے کہ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کو حراست میں اس شبہ پر لیاہے کہ یہ نوجوان داعش میں شمولیت کے لیے ہندوستان چھوڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔مہاراشٹر اے ٹی ایس نے تلنگانہ اے ٹی ایس کو خبر دی کہ یہ تینوں ناگپور ایر پورٹ پر جمعہ کی صبح پہونچیں گے اور ملک چھوڑنے کے لیے طیارہ میں سوار ہونے کی کو شش کریں گے۔ جس پر تینوں کو حراست میں لے کر تلنگانہ اے ٹی ایس کے حوالہ کر دیا گیا۔
وہیں گزشتہ ١٦ دسمبر دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کو اس وقت ایک بڑی’کامیابی’ہاتھ لگی تھی جبکہ القاعدہ کے برصغیر کے مبینہ ‘بانی’اور انڈیا چیف کو سنبھل کے دیپا سرائے محلے کے رہنے والے ایک شخص کو دہلی میں گرفتار کیا گیا۔گرفتار شدہ شخص کے بھائی صادق کا کہنا ہے کہ خبریں بتا رہی ہیں کہ ہم گھر چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔جبکہ ہم کہاں بھاگے ہیں؟ہم تو یہیں ہیں۔پھر وہ اپنے درد اور حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’ڈاکٹر کہتے ہیں ایڈز چھونے یا ساتھ بیٹھنے سے نہیں پھیلتا ہے،لیکن جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص ایڈز کا مریض ہے ،لوگ ملنے سے گھبراتے ہیں۔
برخلاف اس کے ہمارا معاملہ تو ایڈز سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ہم جس کے پاس جاتے ہیں،وہ عجیب سی نظروں سے دیکھتا ہے۔اب آپ ہی بتائیے کہ ہم کیا کریں۔ہمارے پاس تو کیس لڑنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔ہم تو روز کنواں کھودتے ہیں اور پانی پیتے ہیں،ہمارے پاس تو دہلی جانے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں’۔اس سے قبل میڈیا کی رپورٹنگ سے ناراض ہوتے ہوئے صادق نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر آپ لوگ(میڈیا والے) اتنی نفرت کہاں سے لاتے ہیں؟کیا صرف الزام لگنے سے کوئی مجرم ہو جاتا ہے؟مجرم تو کوئی اس وقت ہوتا ہے جبکہ ہماری عدالت ثابت کر دیتی ہے۔لیکن آپ اس سے پہلے ہی اسے دہشت گرد اور نہ جانے کن کن الفاظ سے نوازنا شروع کردیتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں جب سے القاعدہ سے وابستگی کے شک کی بنا پر وطن عزیز میں لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہونا شروع ہوئی ہے،تقریباًاس ہی وقت سے انڈین مجاہدین کے نام پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ رک گیا ہے۔ممکن ہے جو لوگ پہلے انڈین مجاہدین کے ذریعہ دہشت گردی پھیلانے کی کوشش کرتے رہے،وہ اب القاعدہ کے نام سے دہشت گردی میں ملوث ہونا چاہتے ہوں۔اس کے باوجود حکومت یہ بتانے میں ناکام رہی ہے کہ سابقہ دنوں جن نوجوانوں کا تعلق انڈین مجاہدین سے تھا،اس انڈین مجاہدین نامی تنظیم کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے؟اسے کون لوگ چلا رہے ہیں؟اس کا بانی کون ہے؟وغیرہ۔لیکن چونکہ اب داعش اور القاعدہ کے نام پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے لہذا انڈین مجاہدین نامی تنظیم اور اس سے وابستہ افراداور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں پر شاید روک لگ گئی ہے۔یا وہ مقاصد جو مقصود تھے وہی اب القاعدہ اور داعش کے نام سے حصول کیے جا رہے ہیں۔
وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ قیاس اور شک کی بنا پر کی جانی والی گرفتاریاں جب عدالت میں جرح کے ذریعہ سامنے آئیں تو ایک بڑی تعداد باعزت بری ہوئی اور جو الزامات عائد کیے گئے تھے وہ کمزور ثابت ہوئے ۔دوسری جانب باعزت بری ہونے کے باوجود طویل مدت جیل میں زندگی گزارنے کے سبب یہ افراد اور ان سے وابستہ اہل خانہ و رشتہ داران مالی اور نفسیاتی پریشانیوں میں حد درجہ ملوث رہے۔یہاں تک کہ سماج میں ایک باعزت زندگی گزارنے ان کے لیے محال ہو گیا۔اس موقعہ پر جہاں ایک جانب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صرف شک کی بنا پر لوگوں کو گرفتار نہ کرے بلکہ گرفتاری کا سبب ہی پختہ ثبوتوں کی بننا چاہیے وہیں میڈیا سرکاری ہو یا نیم سرکاری یا پھر پرائیوٹ،ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ گرفتار شدہ لوگوں کے لیے تب تک لفظ” دہشت گرد “نہ استعمال کریں جب تک کہ ان پر عائدجرم ثابت نہ ہو جائیں۔
ہماری آج کی گفتگو کا موضوع بھی یہی ہے کہ میڈیا کو نہ متعصب ہونا چاہیے،نہ یک طرفہ اور نہ ہی جانب دار۔میڈیا کی موجودہ صورتحال پر اگر ہم نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج کا میڈیا پوری طرح کارپوریٹ کے ہاتھ میں ہے۔کارپوریٹ یعنی یہاں کسی بھی کام میں دولت صرف اسی بنیاد پر لگائی جاتی ہے کہ اس سے منافع کمایا جا سکے۔دوسرے الفاظ میں جس طرح دیگر روزمرہ کا سامان بازار میں منافع و نقصان کی بنیادوں پر فروخت ہوتا ہے ٹھیک وہی صورتحال میڈیا کی بھی ہے۔یہاں کا کارپوریٹ ورلڈ چاہتا ہے کہ میڈیا پر صرف کی جانے والی دولت کا بھر پور منافع اسے حاصل ہو۔اس ہوڑ اور اس دوڑ میں میڈیا کو اپنی ٹی آر پی بڑھانا ایک طرح کی مجبوری ہے۔یہ ٹی آرپی ہی کسی چینل کے منافع میں کامیابی و ناکامی سے ہمکنار کرتی ہے۔
ان دو صورتوں میں با خوبی سمجھا جا سکتا کہ آج کے میڈیا میں آنے والی خبریں،کس نوعیت کی ہیںہوسکتی ہیں۔اور انہیں اس بات کی کیا کبھی فکر ہو سکتی ہے کہ جو چیزیں’خبروں’کے نام پر پیش کی جا رہی ہیں،وہ غلط ہیںیا صحیح؟صورتحال کے پس منظر میں جب ہم بات کرتے ہیں تو درحقیقت میڈیا میں آنے والی بیشتر خبریں غیر معتبر و بے مقصدنظر آتی ہیں۔وہیں ان خبروںکا غیر معتبرہونا،نیوز چینلز،پرنٹ و سوشل میڈیا اور ان سے وابستہ جرنلسٹ حضرات پر بھی سوالیہ نشان لگا تی ہیں۔
اس کے باوجود آج بھی میڈیا میں ایسے حضرات موجود ہیں جو سچائی کو ہر ممکن طریقہ سے جاننے کو شش کرتے ہیں،خبر کو خبر کی حد تک محدود رکھتے ہیں،میڈیا میں دولت کی فراوانی اور اس کے بے جا استعمال سے خود کو بچاتے ہیں،کسی مخصوص نظریہ اور فکر کے حاملین کی حمایت و مخالفت اس حد تک نہیں کرتے کہ انہیں جانب دار کہا جائے۔بس یہی وہ حضرات ہیں جن کے دم پر مخصوص چینلس اور اخبارات و پورٹلس اپنی نمایاں پہچان بناتے ہیں۔لیکن کیونکہ اس فیلڈ میں ہر فکر و نظریہ کے حاملیں اپنے اثرات مرتب کرنے کے لیے بے شمار دولت کو خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں،لہذایہ مخصوص شناخت کے غیر جانب دار جرنلسٹ حضرات کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی نظرآرہی ہے۔اور یہ وہ بڑا چیلنج ہے جسے قبول کرنے کے لیے باعزم اور باصلاحیت حضرات کو میدان عمل میں آنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس موقع پر اہم ترین کرنے کا کام افراد سازی کا ہے۔میڈیا میں ایسے سچے ،دیانت داراور انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے حضرات کو لانے کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل کو جرات وشجاعت کے ساتھ حکومت کے سامنے رکھنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ یہ افراد غیر جانب دار ہونے چاہیے۔کسی بھی فکر سے اس حد تک متا ثر نہ ہوں کہ اس کی خرابیوں کو بھی بطور خوبی پیش کریں۔کیونکہ ایسی خود ساختہ خوبیاں دیر پا نہیں ہوتیں۔دوسری طرف مختلف حضرات ،انجمنیں اور تنظیمیں اپنے اخبارات و رسائل اور چینلس جاری کیے ہوئے ہیں،جو ایک بڑا انفرا اسٹکچر کا تقاضہ کرتے ہیں،اس کے باوجود ،ان چینلس اور اخبارات و رسائل میں شائع شدہ چیزوں کے لیے وہ دوسروں پر منحصر ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کم سے کم اخبارات ورسائل جاری کیے جائیں،لیکن ایسے افراد ضرور تیار ہوں جو پہلے سے جاری اخبارات و رسائل اور نیوز چینلس میں مختلف خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔افراد سازی کے عمل سے گزرتے ہوئے جو اثرات مرتب ہوں گے وہ دیر پا،دور رس اور زیادہ فائدہ مند ہوں گے،برخلاف اُن کوششوں کے جن کا مقصد اپنا کوئی اخبار یا پورٹل یا پھر چھوٹا یا بڑا نیوز چینلس قائم کرنا ہوتا ہے،کیونکہ کوششیں قائم کیے جانے تک ہی محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس کو برقرار رکھنا اور ترقی دینا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔اس کے ہر گز یہ معنی نہیں ہیں کہ باصلاحیت افراد یا ادارے ان کوششوں کو ترک کردیں،بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہر دو سطح پر سعی و جہد کی ضرورت ہے۔لیکن سعی و جہد کا زیادہ حصہ افراد سازی کے لیے ہونا چاہیے،تاکہ یہ افراد اندرون خانہ اور بیروں خانہ ہر دو سطح پر کارآمد ثابت ہوں۔
آخر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جس طرح آج کے حالات میں میڈیا میں لوگ صرف اور صرف دولت کمانے کی دھن میں مصروف ہیں،متذکرہ افراد سازی اور عملی میدان میں سعی و جہد ،دنیا کو یہ پیغام دے کہ ہم موجودہ ٹرینڈس سے اتفاق نہیں رکھتے۔ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس میدان میں آنے کا مقصد صرف دولت کا حصول ہو بلکہ اس میدان میں ہمارے دخول کا مقصد اگر کچھ ہے تو صرف اور صرف قرآن حکیم کی وہ تعلیمات جس میں فرمایا گیا کہ :”اے ایمان لانے والو اگر تمہارے درمیان کوئی فاسق(جھوٹا شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو،ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں(ناحق)تکلیف پہنچا بیٹھو،پھر تم اپنے کیے پر پشیمان ہو”(الحجرات:٦)۔اوریہ بھی کہ:” جنہوں نے ایمان اور نیک عملی کا رویہ اختیار کیا ہے انہیں ان کے اجر پورے پورے دے دیے جائیں گے۔ اور(خوب جان لو کہ )ظالموں سے اللہ ہرگز محبت نہیں کرتا”(اٰل عمران:٥٧)۔
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co