تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ربیع الاول کا مبارک مہینہ اور دو شنبہ کا عظیم مقدس دن تھا اور صبح صادق کا وقت تھا کہ حضرت آمنہ کے آنگن میں وہ چاند سا بیٹا اُترا جیسے یہ چاند نما بیٹا اس دنیائے آب و گل میں تشریف لایا کائنات کا ذرہ ذرہ مہک اٹھا چمک اٹھا ہوا ئیں فضائیں خوشی سے جھوم اُٹھیں بوڑھا آسمان اہل آسمان چاند تارے نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان کی کرہ ارض پر آمد کو خوشگوار حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔ ہزاروں درود و سلام اِس چاند روشن چہرے والے بچے پر جو وجد تخلیق کائنات تھا جس کے بابرکت مقدس وجود نے اِس کائنات اور حضرت انسان کی تقدیر ہی بدل ڈالی صدیوں سے جہالت ، ظلم و ستم اور گمراہی کے گھٹا ٹوب اندھیروں میں ڈوبی انسانیت کو بلند و بالا مقام سے سرفراز کیا اور روزِ محشر تک کے لیے ہر زمان اور ہر مکان پر اپنی عظیم شخصیت کے روشن اور امر نقوش ثبت کر دیے آنے والے کے مبارک قدم نے جیسے ہی دھرتی کو بوسہ لینے کا اعزاز بخشا ہر طرف شادابیاں بکھر گئیں صدیوں سے بنجر کھیتیاں لہلہا اُٹھیں ۔صدیوں کی ظلمتوں اور اندھیروں میں اچانک نور کی کر نوں کی برسات ہو نے لگی اور خوشبو سے کرہ ارض پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔
ایسا آفتاب روشن ہو ا جس کی تابانیوں سے صرف عالم رنگ و بو ہی روشن نہیں ہوا بلکہ جہان لطیف بھی چمک اُٹھا جو رنگ و بو کی کیفیت بالا و پست کے تعینات سے ماورا ہے ایسا چاند روشن ہو ا جس کی نور آفشانی کا رنگ ہی نرالا تھا جو نہ زبان پر لایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے زورِقلم میں اتنی جرات اور وسعت ہے کہ وہ آپ ۖ کی شان کو بیان کر سکے۔ ایسا چاند سا چہرہ جس کے من مو ہنے مکھڑے نے نہ صرف اپنی دکھی ماں کو حقیقی اور سچی خوشیوں سے سر شار کیا بلکہ ہر درد کے مارے کے لبوں پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں اِس ریشمی نورانی پیکر کے جلوہ فرمانے سے غمزدہ ماں کو خزاں زدہ گلشن ہی جگمگانے لگا بلکہ جہاں کہیں بھی اداسیوں مایوسیوں نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے وہ امید کی کر نیں پھوٹنے لگیں اور شکستہ غمگین دلوں کو بہلانے لگیں صرف جزیرہ عرب کا ہی بخت نہیں جا گا بلکہ انسانیت جو صدیوں سے ہوا و ہوس کی آہنی زنجیروں میں جکڑی ہو ئی تھی اور ظلم و ستم کے آہنی شکنجوں میں کسی ہو ئی کراہ رہی تھی اس کو ذہنی جسمانی مالی روحانی سیاسی غلامی سے نجات کا پروانہ ملا یہ فیض ِ عظیم صرف اہل ِ عرب کے لیے نہیں نمودار ہوا تھا بلکہ یہ وہ مسیحا اعظم طلوع ہوا کہ سارے نو ع انسانی کو دعوت دی گئی کہ دعوت ِ عام ہے جو بھی چاہے آئے اور اِس چشمہ فیض سے جتنے جام نوش کرے۔
جس وقت یہ چاند حضرت آمنہ کے آنگن میں اترا ٹھیک اسی وقت اِس عظیم مو لود کے داد ا جان حضرت عبدالمطلب جو قبیلہ قریش کے سردار تھے جس کے دستر خوان اور سخاوت کے چرچے دور دراز تک پھیلے ہوئے تھے کعبہ کو طواف کر رہے تھے کہ اچانک ایک نقرئی نسوانی آواز فضا میں گونجی آقا۔۔سردار ۔۔سردارِ قریش نے پلٹ کر آواز کی طرف دیکھا تو اُن کے بیٹے عبداللہ کی کنیز تیزی سے دوڑتی ہو ئی اُن کی طرف آرہی تھی اور باآواز آپ کو اپنی طرف متوجہ بھی کر رہی تھی وہ قریب آکر بولی سردار جلدی گھر چلیں کیا ہوا سردار قریش کے لہجے میں حیرت تھی کہ کنیز برکہ کے منہ سے پھولوں کی برسات نکلی آقا ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں ننھے سردار ؟ سردار قریش نے سوالیہ نظروں سے برکہ کو دیکھا۔
سردار قریش کا دماغ تیزی سے سوچ رہا تھا اچانک دماغ میں روشنی کا جھمکا ہوا خوشگوار خیال بجلی کے کوندے کی طرح اُن کے جسم و جان کو سرشار کر گیا چہرے پر دلنواز تبسم ابھرا آیا خوشگوار حیرت اور جھومتے ہوئے پو چھا لڑکا ہے ؟ جب کنیز نے ہاں میں اپنے سر کو جنبش دی تو حضرت عبدالمطلب کے جسم کے پور پور خوشی و مسرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگی فضائیں ہوائیں مشکور ہو کر خوشی سے جھومنے لگیں کعبہ کے بوڑھے در و دیوار خوشی سے جھومنے لگے سورج چاند ستارے کائنات کا ذرہ ذرہ خوشی سے جھومنے لگا سردار قریش جو عمر کی صدی گزار چکا تھا اِس خبر سے نوجوانوں کی طرح گھر کی طرف خوشی سے دوڑنے لگے کنیز برکہ سردار قریش کی بھرتی اور تیز رفتاری پر حیران تھیں کہ بوڑھا سردار نوجوانوں کی طرف دیوانہ وار گھر کی طرف دوڑ رہا تھا ۔ بوڑھا سردار دس خوبروں بیٹوں کا باپ تھا اُس کے بیٹوں کے بھی بیٹے ہو چکے تھے۔
لیکن جس نشے خوشی اور سرشاری سے وہ آج دوڑ رہا تھا ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا اُس کے محبوب اور سب سے چھوٹے بیٹے جواُن کا لاڈلا بھی تھا اُس کے وفات پا جانے کے بعد آج اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا بوڑھے سردار کی خوشی دیکھنے والی تھی سردار جلد ہی گھر پہنچ گیا لکڑی کا مو ٹا پرانا دروازہ جیسے اُس کا انتظار کر رہا تھا جیسے ہی سردار قریب پہنچا وہ خود ہی کھل گیا بوڑھا سردار رُ ک گیا اچانک اندر سے ننھی سی آواز نے فضا کے ارتعاش میں خوشبوں کے ترانے بجا دیے بچوں کے رونے کی آوازیں سردار بے شمار دفعہ سن چکا تھا لیکن اِس آواز میں خاص سحر اور وجد انگیز کیف تھا سردار مکہ کو یوں محسوس ہو جیسے مکان کے در و دیوار خوشی سے جھوم رہے تھے رنگ و بو کی برسات ہو رہی ہے چاروں طرف خوشبوں اور مسرتوں کے چشمے پھوٹ پرے ہوائیں گا رہی تھیں فضائوں میں خو شی کے نغمے تیر رہے تھے جسے فرش تک عرش تک ذرہ ذرہ مہک چہک رہا ہے۔
پوری کائنات رنگ و نور کے سمندر میں بدل گئی ہو اِسی دوران کنیز برکہ بھی آگئی اس نے سردار کی طرف مسکراتی آنکھوں سے دیکھا سردار عبدالمطلب کا چہرہ خوشی مسرت سے بقعہ نور بنا ہوا تھا خو شی اور سر شاری بوڑھے سردار کے رنگ رنگ سے چھلک رہی تھی اُس کے چہرے پر معصوم بچوں کی طرح شدید خواہش تھی کہ میں فوری طور پر اپنے عظیم پو تے کو دیکھوں ۔ پوتے کی آواز میں خاص تا ثیر تھی اُس کی آواز سے ایسی کرنیں پھوٹ رہی تھیں کہ پو ری کائنات خوشی اور شکرانے میں خدا کے سامنے سجدہ ریز تھی کہ آج خدا کے محبوب ۖ نے اِس کر ہ ارض کو بوسہ لینے کی سعادت بخشی کر ہ ارض کو ننھے چاند نے چھوکر ہمیشہ کے لیے امر کر دیا تھا ۔ آج دھرتی کے بھاگ جاگ گئے تھے کہ اُس نے مسیحا اعظم کے تلوئوں کو بوسا دے کر عظیم سعادت سمیٹی تھی آج تاریخ انسانی اور کائنات کا عظیم ترین دن تھا بوڑھے سردار نے برکہ کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہو ئے کہا اندر جا ئو اور آمنہ سے کہو ہم اپنے پو تے کو نہیں۔
وہ بولتے بولتے رک گئے اور مسکرا کر بولے سلام کرنے کے لیے اندر آنا چاہتے ہیں برکہ مسکراتی ہو ئی اندر داخل ہو گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد بر کہ آواز گونجی سردار آپ اندر تشریف لے آئیں اور پھر سردار قریش خوشی سے لرزتے جسم کے ہاتھ اندر داخل ہو ا کمرے کی دھندلی فضائوں میں ملکوتی حسن کے جلوے بکھرے ہو ئے تھے مو ٹے کمبل سے کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔کنیز نے آگے بڑھ کر کمبل ہٹا دیا سردار قریش کی نظر کپڑے میں لپٹے چاند سے ننھے بچے پر مرکوز ہو گئیں جس کے دودھیا گلابی ملکوتی چہرے کو باریک کپڑے سے ڈھانپ دیا تھا بر کہ نے بڑھ کر باریک کپڑا ہٹا دیا اور سرشار لہجے میں کہا یہ ہیں ” ننھے سردار ۖ ” سردار قریش کے چہرے پر خوشی کے فوارے پھوٹ رہے تھے۔
سردار نے دیکھا ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بند اور سرخ نازک مٹھیاں ہوا میں ادھر ادھر جھولے لے رہی ہیں اور چہرہ مبارک سے رنگ و نور کے آبشار ابل رہے ہیں ننھے سردار ۖ کی ننھی سی ناک اونچی پیشانی ریشمی گیلے بال ناک کے اوپر موٹی بھنوئوں کی لکیر چہرہ چاند کی طرح کھلا ہوا تھا سردار قریش محبت سے ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہے تھے اچانک خو ن کی گردش نے محبت میں جو ش مارا آگے بڑھے جھک کر ننھے سر دار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا یا اور محبت سے اُن کے بو سے لینے لگے اور پھر نسل انسانی کے سب سے بڑے انسان محبوب خدا سردار الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پو تے کی کشادہ پیشانی پر اپنے ہو نٹ رکھ دیے اور قیامت تک کے لیے ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا کے طور پر تاریخ میں امر ہو گئے۔
شاعر دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت کو پر وردگار نے لمبی زندگی عطا کی تھی زندگی کے ابتدائی ساٹھ سال کفر اور جہالت میں گزرے اور پھر جب قدرت مہربانی ہو ئی تو ساٹھ سال بحیثیت ایک سچے مومن کے زندگی گزاری آپ شہنشاہِ دو عالم فخر، موجودات باعث ِ تخلیق کا ئنات شافع محشر ، محبوب رب العالمین ، سید المرسلین رحمة العالمین ، امام الاولین و الاخرین صاحب قاب و قو سین مو لائے کل ختم الرسل محسن انسانیت رہبر انسانیت سرور کا ئنات شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے بارے میں فرماتے ہیں ۔میری عمر ابھی سات آٹھ سال تھی مجھ میں اتنی سمجھ بوجھ تھی کہ جو میں دیکھتا اور سنتا تھا وہ مجھے یا د رہتا تھا ایک دن صبح سویرے ایک اونچے ٹیلے پر یثرب میں ایک یہودی کو میں نے چیختے چلاتے ہو ئے دیکھا وہ یہ بات باا واز کہہ رہا تھا اے گروہ یہود سب میرے پاس اکٹھے ہو جائو وہ اس کا اعلان سن کر بھاگتے ہو ئے اس کے پاس جمع ہو گئے اور اس سے پو چھا بتائو کیا بات ہے تو اُس نے کہا وہ ستارہ طلوع ہو گیا ہے۔
جس نے اِس شب کو طلوع ہونا تھا جو بعض کتب قدیمہ کے مطابق احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی رات ہے ۔ کعب احبار کہتے ہیں کہ میں نے تورات میں دیکھا کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے آگاہ کیا تھا اور مو سی نے اپنی قوم کو وہ نشانی بتائی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ ستارہ جو تمھارے نزدیک فلاں نام سے مشہور ہے جب اپنی جگہ سے حرکت کرے گا تو وہ وقت محمد مصطفی ۖ کی ولادت کا ہو گا اور یہ بات بنی اسرائیل میں ایسی عام تھی کہ علماء ایک دوسرے کو بتاتے تھے اور اپنی آنے والی نسل کو اس سے خبردار کر تے تھے وہب بن زمعہ کی پھوپھی کہتی ہیں کہ جب حضرت آمنہ کے ہاں شہنشاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت ہو ئی تو آپ نے حضرت عبدالمطلب کو اطلاع دینے کے لیے کسی کو بھیجا جب وہ شخص خوشخبری لے کر خانہ کعبہ پہنچا تو عبدالمطلب حطیم میں اپنے بیٹوں اور قوم کے مردوں کے درمیان بیٹھے تھے۔
جب آپ کو پو تے کی خوشخبری سنائی گئی کہ حضرت آمنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہو ا ہے تو حضرت عبدالمطلب کی خوشی اور مسرت کا کو ئی ٹھکانہ رہا آپ فوری طور پر حضرت آمنہ کے ہاں آئے تو حضرت آمنہ نے پیدائش کے وقت جو نو ر کی برسات اور انوار وتجلیات کا مشاہدہ کیا اور آوازیں سنیں بتایا تو حضرت عبدالمطلب بہت خو ش ہو ئے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکڑ اور کعبہ شریف میں گئے وہاں کھڑے ہو کر بارگاہ ِ الہی میں شکر اور دعائیں کیں اور جو انعام اس نے فرمایا تھا اس کا شکر ادا کیا ابن واقد کے بقول اس با برکت اور خو شی کے موقع پر حضرت عبدالمطلب کی زبان پر یہ اشعار جاری ہو گئے ۔ سب تعریفیں اللہ تعالی کے لیے جس نے مجھے پاک آستینوں والا بچہ عطا فرمایا ۔یہ اپنے پنگھوڑے میں سارے بچوں کا سردار ہے اِسے بیت اللہ شریف کی پناہ میں دیتا ہوں۔
یہاں تک کہ اس کا طاقتور اور توانا دیکھوں میں اس کو ہر دشمن اور ہر حاسد آنکھوں کے گھمانے والے کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔حضرت عباس فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پیدا ہو ئے تو آپ مختون تھے اور ناف کٹی ہو ئی تھی یہ معلوم کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کو بڑا تعجب ہوا اور فرمایا کہ میرے اِس بچے کی بڑی شان ہو گی ۔ حضرت عبدالمطلب فرماتے ہیں جس رات ننھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اس رات میں کعبہ میں تھا میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی جگہ سے سر بسجود سر کے بل گر پڑے ہیں اور دیوار کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختار پیدا ہوا، اسکے ہاتھ سے کفار ہلاک ہوں گے اور کعبہ بتوں سے پاک ہو گا اور وہ اللہ کی عبادت کا حکم دے گا جو حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔بلا شبہ حضرت آمنہ کے آنگن میں چمکنے والے چاند اور مہکتے والے پھول کی خوشبو سے سارا عالم معطر اور روشن ہو گا ۔حفیظ جالندھری صاحب نے اِس حقیقت کو کس خوبصورت عقیدت بھرے انداز میں بیان کیا ہے۔
ربیع الاول امیدوں کی دنیا ساتھ لے آیا
دعا ئوں کی قبولیت کو ہا تھوں ہاتھ لے آیا
ضیفوں بے کسوں ، آفت نصیبوں کو مبارک ہو
یتیموں کو غلاموں کو غریبوں کو مبارک ہو
مبارک ہو کہ ختم المرسلین تشریف لے آئے
جناب رحمتہ للعالمین تشریف لے آئے
بصد انداز یکتائی بغایت شان زیبا ئی
امین بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوب سبحانی
سلام اے فخر ِ موجودات فخر نو ع انسانی
سلام اے ظلِ رحمانی سلام اے نور یزدانی
تیرا نقش ِ قدم ہے زندگی کی لوح ِ پیشانی
سلام اے سر وحدت اے سراج بزم ِ ایمانی
زہے یہ عزت آفزائی زہے تشریف اَرزانی
ربیع الاول میں صرف آپکا ظہور ِ قدسی نہیں ہوا بلکہ عالم نو طلوع ہوا ننھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیسے ہی کر ہ ارض پر قدم رکھا اُسی وقت سے تاریخ انسانی ایک شاندار دور میں داخل ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے حضرت آمنہ کا آنگن ہی روشنٍ نہیں ہوا پو ری کا ئنات کا ذرہ ذرہ چمک اُٹھا ایک عظیم انقلاب کا آغاز ہوا صدیوں سے انسانیت کی آنکھوں میں مضطرب خواب کو تعبیر ملی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے زمین ارجمند اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پائیگا ہ کے بوسے سے آسمان بلند ہو گیا آپ کے چہرہ اقدس سے نور اور ہدایت کے چشمے پھوٹے جن کی روشنی سے کائنات کو روشنی ملی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے ہی دنیا کو شرف انسانی کا حقیقی اندازہ ہوا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے سے پہلے حضرت انسان جہالت اور گمراہی کے اندھیروں میں صدیوں سے ٹامک ٹویاں مار رہا تھا اور وہ خود اپنی پہچان اور شان سے غافل تھا اسی بے خبری میں وہ اُس نے ہزاروں جھوٹے خدا بنا رکھے تھے صنم کدوں میں جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز تھا ہر طاقتور اور چمکنے والی چیز کو اپنا خدا بنا رکھا تھا سورج چاند تاروں کی چمک پہاڑوں کی بلندی سے متاثر ہو کر انہیں خدا کا درجہ دے رکھا تھا۔
راجوں شہنشاہوں نوابوں سرداروں اور طاقتور انسانوں کی طاقت اور اقتدار سے متاثر ہو کر انہیں خدا کے اوتار کا درجہ دے رکھا تھا نسل در نسل انسان جہالت اور ظلم کی پستیوں میں ڈوب چکا تھا ڈر خوف اُس کی فطرت کا حصہ بن چکا تھا جنوں بھوتوں کو سجدے کر رہا تھا ۔ اور پھر محسن انسانیت نے آکر انسان کو بتایا کہ تیری حرمت کعبہ سے زیادہ ہے تیری ذات رازِ الٰہی ہے تو امانت الٰہی کا حامل ہے محسن ِ انسانیت کی تعلیمات سے جہالت اور گمراہی کے سیاہ اندھیرے دور ہو گئے اور انسان جو اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہو ئے بتوں کی پو جا کر رہا تھا آج اُس کی عظمت وہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی بنے ہو ئے تھے۔
جو انسان ، بتوں مو رتیوں بھوت پریت کے واہموں خوف سے نیم جان تھا اب صحرا و دریا اس کی ٹھوکر سے دو نیم بو ئے جا رہے تھے حضرت آمنہ کے آنگن میں اُترنے والے چاند کی روشنی سے دنیا میں انقلاب آگیا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس ٹھوس عقیدے اور جامع نظام کی بنیاد رکھی وہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین حقیقی انقلاب ہے اگرچہ دنیا میں اور بھی بہت سارے انقلاب آئے اور اپنی مدت پو ری کر کے چلے گئے لیکن تاریخ عالم کی پو ری معلوم تاریخ میں صرف ایک بار ہی پہلی اور آخری بار ایسا انقلاب برپا ہوا کہ تیس برس کے قلیل عرصے میں چند افراد نہیں پورا معاشرہ اپنے ظاہر باطن اور کر دار میں ایسی حقیقی اور واضح تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ اِس معاشرے کے کردار کی روشنی سے پور ی دنیا فیض یاب ہو تی ہے حضرت آمنہ کے گھر چمکنے والے چاند محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیریسٹھ سال کی زندگی کا ایک ایک لمحہ صدیوں کی راہنمائی کا سامان فراہم کر تا نظر آتا ہے اور یہ عمل روز محشر تک اِسی طرح جاری رہے گا۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956