تحریر : شاہ بانو میر
5 فروری والے دن پاکستانی میڈیا سارا دن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان لوگوں کو سکرین پر لاتا جن سے بھاری بھرکم وصولی ہو سکتی ہے -میڈیا سارا دن چند مخصوص من پسند رہنماوں کو بار بار دکھا کردوسرے دن ان کو اسسٹنٹ سے فون کرواتے کہ سر آپکی فلم اتنی بار دکھائی 300 دے دیں -جواب میں کائیاں سیاستدان ڈانٹ پلاتے کہ مجھے تو اصرار کر کے انہوں نے اپنی ضرورت کیلئے بلایا کیونکہ میرا نام تمہارے ٹی وی کی ریٹنگ بڑہاتا ہے پھر کس خوشی میں میں وقت بھی دوں اور پیسہ بھی؟ افسوس صد افسوس جی ہاں آغاز سے آخر تک شائد ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے دکھوں کا مذاق اڑا کر اپنی اپنی جیب حب استطاعت بھر رہے ہیں – یہی کمزور رد عمل ہیں بھارتی جارحیت کے عمل پر جس کی وجہ سے آج تک ہم ایک انچ بھی حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں – آنٹی ہم نے بہت انجوائے کیاانجوائے ؟ آپ لوگ تو کشمیر کیلئے وہاں گئے تھے
جی ہاں مگرانگلینڈ میں رہنے والی ہماری ایک فیملی جو گزشتہ دنوں کشمیر پر احتجاج کرنے گئی تھی اس وقت تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا کہ ہم کشمیری ہیں اسی لئے میری کزن اپنے تمام بچوں کو شعور دلا رہی ہے کہ کس عظیم مقصد کیلئے وہ انہیں لے کر جا رہی ہے -مگر “” بچے من کے سچے”” کے مٍصداق اس بچی نے سادگی سے ساری کتھا سنا دی کہ وہاں وہ کیا کیا کھاتے رہے اور کیا کیا “” فن “”کرتے رہے – یہ بات صرف میرے لئے نہیں ہم سب کیلئے باعث افسوس ہے – ہر دن عید ہر رات شب برات کی طرح خوش گپیوں میں گزارنے والے ہم لوگ کسی کی جان پرٹوٹی ہوئی قیامت پرکب سنجیدہ ہوں گے – مجھے اس بچی کی بات نے یہ سوچنے پر مجبورکر دیا کہ کیا ہم سب کسی ڈرامے کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں – یا زندگی کو ہم نے ہر دن عید ہر رات شب برات بنا لیا؟ غموں سے چور چور لہو لہان کشمیر کیلئے؟فلم بنوانے ؟ تصاویر کھچوانے؟ انٹرویو دینے؟ اپنے ملبوسات کی میک اپ کی تشہیر کیلئے؟ کیا یہ سب کرنے کیلئے کشمیر کا نام ہی رہ گیا؟
جو سراپا آہ ہے سرد سسکی ہے؟ آہوں سسکیوں کی آماجگاہ کشمیر درد کا وہ عنوان ہے جو صرف وہی بیان کرتے ہوئے ہچکیوں سے روتے ہیں جو سال ہا سال سے وہاں بھارتی مظالم کا شکار ہیں – یورپ کو پاکستان میں بھی دکھایا جاتا ہے – بے جان مظاہرے لشک پشک کرتے زرق برق ملبوسات ہنستے کھیلتے سفر طے کرتے ہوئے بسیں بھر بھر کر مظاہرے پے جا کر بھارتی ہائی کمشنر کو آپ کیا تاثر دیں گے؟ خُدارا !! کشمیر کے اشک کو بہتے ہوئے درد کے ساتھ محسوس کریں – وقت نے آج پاکستان کو خطہ کا معتبر ملک بنا دیا ہے جس کی بات میں دم ہے سن کر بڑی طاقتیں نظر انداز نہیں کر سکتیں – ایسے میں پاکستان کو چاہیے کہ ہر مذاکراتی میز پر کشمیر کو بطور ہنگامی صورت حال سب سے پہلے موضوع بحث بنائے -مگر بغیر کسی مفاہمتی اور سیاسی لین دین کے -کچھ دیر کیلئے آئیے چلتے ہیں اس سہمی ہوئی حسین وادی کے گلی کوچوں میں جہاں ویرانی کا راج ہے حسرت ہے یاسیت ہے
اس لئے کہ ان مقامی لوگوں پر 7 لاکھ سے زائد بھارتی ظالم فوجی دستے تعینات کئے گئے ہیں وہ جوانوں کو درندے بن کر یوں موت کے گھاٹ اتار دیتے جیسے وہ انسان نہیں گاجر مولی ہوں – عزتوں پر ہوتے ماتم ہر دوسرے گھر میں سناٹے کو رواج دے رہے ہیں ذہنی خوف میں مبتلا کشمیری خواتین باوجود آہنی عزائم رکھنے کے لاشعور میں موجود وحشت خوف کے سبب اپاہج بچوں کو جنم دے رہی ہیں – شدید ترین ذہنی دباو کے اسیر بچے مستقبل کیلیے بیمار نحیف نسل بن رہے ہیں – بچے ہمارے بچوں کی طرح بے فکری سے سکول کے راستے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے نہیں جاتے – سہمے ہوئے خوفزدہ جاتے ہیں گھروں سے باہر حسین وادیوں کے دلکش نظاروں سے لطف اندوز نہیں ہوتے بلکہ شائد گھروں کی کھڑکیوں سے محصور وادی کو دیکھ کر آسمان کی جانب دیکھ کر سرد آہ بھر لیتے – ذرا ان بچوں کے مایوس چہروں پے چھائی ہوئی زردی اور خوف کی تہہ در تہہ بچھی لکیروں کو تو دیکھیں آپکو دل میں درد محسوس ہوگا
لاکھوں کے حساب سے جان دینے والے شھداء کیا ہمارے اسی غیر ذمہ دارانہ رویئے کے مستحق ہیں نبی پاک ٌ کا ارشاد مبارک ہے “”جب نماز پڑھتے ہو تو رو رو کر اللہ پاک سے دعا کرو رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو – تا کہ ماحول اور سوچ کو سنجیدگی عطا ہو سکے – ایسے خوبصورت اسباق ہمیں انہی موقعوں کیلئے پڑھائے گئے تھے “””کشمیر جیسا حساس مسئلہ انشاءاللہ حل ہو جائے -کشمیر کو پک نک کا اسپاٹ نہ بنائیں وہاں موجود اپنے دینی بہن بھائیوں کیلئے پوری طاقت سے اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں -پھر دیکھیں یہ مسئلہ حل ہو گا اور 2016 انشاءاللہ تمام ایشیائی مسائل کے حل کا سال ہے
کشمیر پر مظاہروں کی بجائے حقائق پر مبنی نظریاتی لوگوں کے ساتھ پورے جوش کے ساتھ لوگوں کی تعداد کی بجائے اپنے اخلاص پر دھیان دیں تو زیادہ مفید نتائج نکلیں گے -کشمیر انشاءاللہ آزاد ہوگا مگر خلوص نیت شرط ہے کیونکہ کشمیر عام مسئلہ نہیں ہے مقبوضہ وادی پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طویل درد بھری داستان ہے- اسے انشاءاللہ آزاد کروا کے ماوں کے دلوں کی ٹھنڈک میں بدلنا ہے -کیونکہ کشمیر سلگتا ہواعنوان ہے
تحریر : شاہ بانو میر