تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
جس طرح طالبان امریکہ کی پیداوار تھے اسی طرح داعش اسرائیل کی پیداوار ہے۔امریکہ نے ناصرف ساری دنیا سے جذبہِ جہاد رکھنے والوں کو ایک مقام پر اکٹھا کر کے تباہ کیا اور پھر اپنے بغل بچے طالبان کوان سے الگ کرکے بر صغیر میں اورخاص طور پر پاکستان اور افغانستان میںطالبان کے حوالے سے ایک خطر ناک انتشار کو ہوا دی جس سے پاکستان کو بے تحاشہجانی، سیاسی مذہبی، سماجی اور عسکری نقصان پہنچا کر ہماری معیشت کی بھی کمر توڑ کے رکھ دی ۔ معاشی طور پر ہمیں اس قدر تباہی سے نوازا کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے کم ازکم ایک چوتھائی صدی کا سفر مزید طے کرنا ہوگا۔
داعش کو پید کرنے کا ا سرائیل کا در اصل مقصدیہ ہے کہ پاکستان، ایران،ترکی اور سعودی عرب ان چاروں ممالک کی تباہی ہے۔اس ضمن میں ابوبکر ا لبغدادی نے اصل میں اسلام کا نعرہ دے کربظاہر سخت اسلامی عقائد کے حامی لوگوں کو بیوقوف نبا کران سے ایسے سنگین گناہ کروائے ہیں کہ پھر ان کے پاس ان جرائم سے بچت کا کوئی راستہ باقی ہی نہیں رہے گا۔اور دیکھنے میں بھی یہ ہی آرہا ہے کہ داعش نامی تنظیم سفاکانہ کاروائیاں اسلام کے نام پر کر رہی ہے اور یہ صرف مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچا رہی ہے۔ ان کی اس حرکت سے ناصرف مسلمان ممالک نہ خوش ہیں بلکہ ساری دنیامیں اسلام کو نفرت کا نمونہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔داعش کے پیدا کرنے سے اسرائیل دہرا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ایک جانب اسلامی دنیا کے خلاف نفرت پیدا کرانا اس کا مقصد ہے۔تو دوسری جانب مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرانا ۔مگرخوش قسمتی سے اس کو اسلامی دنیا میں کہیں بھی پذیرنہیں مل رہی ہے داعش نے عراق و شام کے بڑے حصے پر قبضہ جما کر اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کیاہواہے۔اس حولے سے مفتیِ اعظم السعودیہ شیخ عبدالعزیز الشیخ اور سینئر اسکالرز کے چیئر مین نے سعودی اخبار عکاظ سے اپنے ٹیلفونک انٹر ویو میںداعش کو خارجیوں کی ہی ایک قسم قرار دیتے ہوے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی فوج کا حصہ ہے ۔جس کے جنگجو اسلام اور مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نُقصان پہنچا رہے ہیں انہیں اسلام کا پیرو کار نہیں سمجھا جا سکتا۔
ان لوگوں نے پہلی بار اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کی ہے اور جو مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہوے ان کے ناحق قتل کی اجازت دیتے ہیں۔ ایہ بات امہ کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ ا سرائیل پر حملوں کی ابو بکر البغدادی کی حالیہ دھمکی کے حوالے سے مفتیِ اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے خلاف دھمکی محض ایک جھو ٹ ہے۔کیونکہ داعش در حقیقت اسرائیلی فوج کا ہی ایک حصہ ہے۔مفتیِ اعظم جو بات کی ہے ۔ ہم یہ بات اس وقت کہہ رہے تھے جب اسنے اپنی کاروایوں میںعراق میں شدت پیدا کی تھی اور امریکہ کی جانب سے داعش کے خاتمے کی تڑیان بھی لگائی جاتی رہی تھیں۔جو عراق میں اپنے پیر پھیلا رہی تھی۔ مفتیِ اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ داعش خود ساختہ خلافت قائم کر کے اسلامی مملکتوں پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔کیونکہ ان کاہدف بھی صرف اسلامی ممالک ہی ہیں۔
اسوقت درحقیقت داعش کے خلاف دنیا کی بہت بڑی اکثریت کھڑی ہو چکی ہے ایک جانب عراقیوں نے ان کے خلاف بہترین فوجی حکمتِ عملی اختیار کر کے اکثر علاقے ان دہشت گردوں سے خالی کرالیئے ہیںاور داعش کے قبضے کا ضلع رامادی بھی داعش جنگ جووں سے چھڑالیاگیا ہے۔ فلوجہ میں عراقیوں نے 300 داعش کے ارکان کو ہلاک کر دیئے ہیں اور ان کے لئے شدید مشکلات پیدا کردی ہیں او راب انہیں ہر محاذ پر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تو دوسری جانب سویت روس نے شام میں ان کے ٹھکانوں پر حملے کر کے ان کی کمر توڑنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تیسرے افغانستان میں بھی ان پر کاروائیاں ہو رہی ہیں۔صوبہ ننگر ہار کے ترجمان کے دعوے کے مطابق ننگر ہار میںافغان فضائیہ کی بمباری سے70 کے قریب داعش جنگجووں کی ہلاکت کی اطلاع دیگئی ہے اور پاکستان میں بھی لاہور سے اطلاع ہے کہ 9داعش کے دہشت گردوں کو شام جاتے ہوے پاکستان کے اداروں نے گرفتار کر لیا ہے۔اس طرح اب داعش کے خلاف دنیا بھر میں گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور پاکستان میں ان کا نٹ ورک قائم ہونے ہی نہیں دیا جا رہا ہے۔جو یہاں بھی زمین کی زر خیزی کو دیکھتے ہوے پیر پھیلانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
آج کی اسلامی دنیا میں مجموعی طور پر ہمارا پرسیہشن قابلِ تقلید تو رہا ہی نہیں ہے۔ مہذب دنیا میں تو یہ معاملہ ہے کہ کوئی قوم یا ملک اصولی طور پرآج کسی ملک پر قبضہ کر ہی نہیں سکتا ہے۔ اگر ماضی کی طرح ایسا ہوتا کہ کوئی ملک بھی کسی ملک پر طاقت کے بل پر چڑھائی کر کے اپنے مفتوحہ ملک پر جب تک اُس کی طاقت مضبوط و بر قرار رہتی قابض رہتا۔
اُس کے بعد پھر دوسری طاقتور قوم یا ملک اُس پر قابض ہو جاتا۔ مِن حیث القوم ہم کب کے ختم کر دیئے جاتے اور پھر ہم تاریخ کا عبرت ناک انجام بن کر تاریخ کے دھن دھلکوں میں کہیں گُم ہوچکے ہوتے اور بقول علامہ اقبل کے ” تمہاری داستاں تک نہ ہوتی داستانوں میں ” کے مصداق کہیں گُم گشتہ اوراق کا حصہ بنے پڑے ہوتے۔یہ بھی بڑی عجیب منطق ہے کہ ہم اپنے ماضی پر فخر تو کرتے ہیں مگر کہیں سے بھی ہم اپنے اُس ماضی کی تباہی پرشرمندہ دکھائی نہیں دیتے ہیں،اور وہ ہمیں سبق آمو اور عبرت کا نشان بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔آج کے علمائے کر م کا کردار کا کردار ہم سب کے سامنے ہے۔اس پر مزید بحث و مباحثہ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
ہم اپنے ازلی دشمنوں کو آج بھی اپنا سائو سمجھتے ہیں۔ جو ہماری سب سے بڑی بھول ہے۔القاعدہ کو پیدا کرنے والے بھی ہمارے نام نہاد دوست ہی تو تھے۔جنہوں نے جہاد، جہاد کے نام پر راسخ العقید مسلمامانوں کو یک جا کر کے سب کو دہشت گرد بنا دیا(اور لگے اسلامی نظام کی برائیاں کرنے)اور پھر وہ خود تو ان کو تباہ نہ کر سکے ۔مگر ہمارے گھروں میں آگ لگا کر ہمیں سے ہی کہا جاتا رہا ہے کہ اس آگ کو بُجھائو ورنہ ہم بہت طاقتور ہیں ۔مرتا کیا نہ کرتا دہشت گردی کی دشمنوں کی لگائی آگ کا ایندھن بھی ہم ہی بنے اور اس کو ٹھنڈا کرنے کا ٹاسک بھی ہماری ہی ذمہ داری ٹہرا۔ آج کا داعش کا عفریت بھی ماضی کے اسی گورکھ دھندھے کا حصہ ہے۔جس میں نادان اور راسخ العقیدہ نوجونوں کو جنتوں کا جھانسہ دے دے کر میدانوں میں اتارا جا رہا ہے۔
آج اس گیم میں درمیانی ذہنیت اور عقل والے نوجوان ہی نہیں، بلکہ بڑی تعداد اعلیٰ گھرانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاد وقتِ مخصوصہ پر ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے۔مگر اس کا علان ہر ایراغیرا کرنے کا مجاز نہیں ہے۔۔ جیسا کہ آج کی دنیا میں ہو رہا ہے۔
برین واشنگ اور نفسیاتی حربوں سے دشمنوں کے پالتو،عیار و مکار اور چالاک افراد کا انتخاب کر کے میددن میں اُتارا جاتا ہے اور پھر یہ چالاک افراد پیسے دولت سمیت ہر بفسیاتی حربہ استعمال کر کے نوجونوں کو قرآن و حدیث کے حولوں سے ایسا ورغلاتے ہیں کہ پھر وہ نوجون گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔
بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے بظاہر نیک کام کرنے کے عیوض کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں اس طرح اسلام کے دُشمنوں کی خواہشات کے عین مطابق یہ اپنے ہی لوگوں کے دشمن بنا دیئے جاتے ہیں ۔ان انہیں ہم سے ذاتی طور پر اٹکنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ہے۔ بلکے ان کے پالتو نوجونوں کا بہکا بہکا کر ان کے ایجنڈے کی تکمیل کر دیتے ہیں۔اسرائیل نے داعش کو پیدا کر کے مسلم دنیا کی بر بادی سامان انہی کے ہاتھوں کر ادیا ہے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com