تحریر : سید انور محمود
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں منگل 29 دسمبر 2015ء کی صبح نادرا آفس کے باہر شناختی کارڈ بنوانے والوں کا رش تھا ، جب ایک خودکش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل دفتر کے دروازے سے ٹکرا دی۔ خود کش حملے میں 26 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ عین اس وقت جب پوری قوم مردان میں خود کش حملہ کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر غمزدہ تھی اور امدادی ورکر مرنے والوں کی لاشیں اٹھانے اور زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے میں مصروف تھے، تو دوسری طرف اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں ایک دنگل ہورہا تھا، جہاں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی اور پاکستان علما کونسل کے چیئرمین مولانا طاہر اشرفی آپس میں ہاتھا پائی میں مصروف تھے۔اجلاس میں احمدیوں کے مسئلے پر بات چیت کے دوران دونوں علماء کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور اُنہوں نے ایک دوسرے کے گریبان پکڑلیے۔
اجلاس کے بعد مولانا طاہر اشرفی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ “گذشتہ اجلاس کے ایجنڈے میں قادیانیوں کے بارے میں ایک شق شامل کی گئی تھی جس کے بعد ملک میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی جیسے اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان چاہتے ہیں کہ جو ضابطہ اخلاق متفقہ طور پر بنا ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کا مسئلے کو بھی ازسر نو دیکھا جائے، اور مرتد کون ہوگا، ذمی کون ہوگا، کافر کسے کہا جائے اور کسے نہ کہا جائے”۔ مولانا طاہر اشرفی کی پریس بریفنگ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسئلہ بہت گھمبیر اور خطرناک تھا، ورنہ دوبارہ یہ مسئلہ پھر ایک المیہ بن جاتا اس میں افراتفری اور بدامنی کا بھی خطرہ ہو سکتا تھا، ایک معاملہ طے ہو چکا ہے اُسے دوبارہ چھیڑنے کا کیا فائدہ ہے۔ اس کیلئے ایسے فورم کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جو بہت اہم اور نظریاتی سمجھا جاتا ہے اور وہاں یہ سوال اٹھانا کہ “قادیانی کافر ہیں مرتد ہیں یا گمراہ ہیں؟”۔
مولانا اشرفی کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے ایجنڈے کے حوالے سے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے وضاحت طلب کی تواسی دوران مولانا شیرانی اپنی نسشت سے اٹھے اور انھوں نے میرا گریبان اپنے ہاتھوں سے پکڑا جو قابل شرم بات ہے۔میرا صرف ایک سوال ہے کہ کیا ایک ایسا شخص جو اختلاف رائے قبول کرنا تو دور کی بات، اپنے اراکین کا گریبان پکڑلے اسے اسلامی، آئینی ادارے کا سربراہ ہونا چاہیے؟ گریبان پکڑنا، تشدد کرنا اُن کی شرعی ذمہ داری ہے یا قانونی ذمہ داری ہے یا ان کے تعصب کی؟ جبکہ مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ صوتحال کو غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے طاہر اشرفی کے ساتھ دست گریباں ہونے کی بھی تردید کی۔مولانا طاہر اشرفی نے میڈیا پر آ کر اپنا چاک گریباں دکھایا اور یہ الزام بھی لگایا کہ مولاناشیرانی بلوچستان سے اپنے ساتھ “غنڈے”لے کراسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں آتے ہیں اوروہ غنڈے بھی اُن پرحملہ آور ہوئے۔ دوسری جانب مولانا محمد خان شیرانی نے الزام عائدکیاکہ مولانا اشرفی حالت غیرمیں تھے اورانہوں نے نشے کے عالم میں اجلاس میں ہنگامہ آرائی کی ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں غنڈوں کی آمدورفت یا شراب کا تذکرہ ایک نہایت تکلیف دہ معاملہ ہے۔ہمارے یہ نام نہاد عالم گالم گلوچ ، الزام تراشی اور ہاتھا پائی کے ذریعے یہ پیغام دے رہے تھے کہ اُنہیں اپنے گرد و نواح میں رونما ہونے والے واقعات سے کوئی غرض نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمان انتہائی چالاک اورمعاملہ فہم سیاستدان ہیں، 2008ء میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت ختم ہونے کے بعد میں پیپلز پارٹی کو مولانا کی دوستی بہت کام آئی۔مولانا فضل الرحمان کی سیاسی چالوں کا تو ہر کوئی معترف ہے، 2010ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ کے حصول کیلئے مولانا نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا ڈرامہ رچا کر کامیابی سے مولانا شیرانی کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ حاصل کرلی۔ مولانا شیرانی کا تقرر سیاسی نوعیت کا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی نوعیت بھی سیاسی ہو چکی ہے۔ کونسل میں اب تک ایسا کچھ خاص نہیں ہوا جو قابل ذکر ہو، اسے آپ زیادہ سے زیادہ مرکزی وفاقی یونین کونسل کہہ سکتے ہیں، جہاں لوگ منتخب ہوکے نہیں آتے نامزد کئے جاتے ہیں۔ ڈھائی سال پہلے مولانا شیرانی نے مطالبہ کیا تھا کہ “چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے برابر کا درجہ دیا جائے”۔ مولانا شیرانی نے 17فروری 2015ء کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ “جمہوریت کُفر کا نظام ہے”، اب مولانا سے کو ئی پوچھے کہ آپ جو مطالبہ کررہے تھے تو آپکو یہ تو معلوم ہوگا کہ چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی جمہوریت کے زریعے ہی منتخب ہوتے ہیں اور جمہوریت کو آپ کفر کہہ رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اقتدار میں ہو یا مسلم لیگ (ن) یا کوئی اور ان میں سے کسی کو بھی اسلامی نظریاتی کونسل سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں معلومات سے کوئی دلچسپی۔ سابق فوجی صدر ایوب خان نے 1962ء میں اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی تھی، اور ابھی تک اس کی سرگرمیاں، نکاح، طلاق اور پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر، دوسری شادی، یا کم عمر بچیوں سے شادی قسم کے مسائل پر فتوے دینے تک محدود ہیں۔ گزشتہ برس اسی کونسل نے اپنے ایک فیصلے میں بچوں کی کم عمری میں شادیوں پر پابندی کے ملکی قانون کو اسلامی احکامات سے متصادم قرار دے دیا تھا اور حکومت سے مطابہ کیا تھا کہ وہ اس قانون میں ترمیم کرے۔ اس پر انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں اور کارکنوں کی طرف سے اس کونسل کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اسلام کا اقتصادی نظام کیا ہے اور اُسے پاکستان میں کیسے نافذ کیا جائے؟ پاکستان کے 65 فیصد مفلوک اُلحال انسانوں کی بنیادی ضروریات کوکس طرح پورا کیا جائے؟ ان مسائل سے اسلامی نظریاتی کونسل کا کوئی لینا دینا نہیں۔
مولانا شیرانی اپنے کٹر نظریات کی تبلیغ کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کا پلیٹ فارم استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ مولانا شیرانی جب شر کی روک تھام کے لئے عورتوں کو پابند اور برقع بند کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ درحقیقت اس بیمار مردانہ ذہنیت کا اظہار ہے جو معاشرے میں برائیوں کے فروغ کی تمام ذمہ داری خواتین پر ڈال کر خود گناہ کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس طرح وہ خود تو ناقابل اعتبار اور مضحکہ خیز شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ اسلام اور اس سے وابستہ روایات اور ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں۔روشن خیالی اور جمہوریت کے عہد نو میں اس قسم کے رویہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔دین سے وابستہ لوگوں کے یہی متضاد اور افسوسناک رویے عام لوگوں میں بے راہ روی عام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ گذشتہ سال سندھ اسمبلی میں خواتین سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور وفاق سے مطالبہ کیا گیا کہ کم عمری کی شادی، ڈی این اے ٹیسٹ سے متعلق عملدرآمد روکا جائے۔ اسکے ساتھ ہی سندھ اسمبلی میں اسلامی نظریاتی کونسل ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کونسل کی سفارشات ختم کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی تھی۔
نذیر ناجی اپنے ایک مضمون “مولانا شیرانی کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟” میں لکھتے ہیں کہ “اسلامی نظریاتی کونسل میں جو ہنگامہ برپا ہوا اس پر مولانا شیرانی کا غیر معمولی ردعمل کسی بڑے منصوبے کی ناکامی پر جھلاہٹ ہے۔ ہو سکتا ہے اسی جھلاہٹ میں انہوں نے مولانا طاہر اشرفی کے گریبان پر ہاتھ ڈالا۔ میں یہ سوچ کر کانپ گیا کہ خدانخواستہ اسلامی نظریاتی کونسل میں ایجنڈے کی متنازعہ شق پر بحث ہو جاتی اور اپنے منصوبے کے مطابق مولانا شیرانی اس موضوع پر حکومت کو کوئی سفارش کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو کتنا بڑا فساد برپا ہونا تھا۔ اس وقت پاکستان نازک حالات سے گذر رہا ہے کہ فساد پیدا کرنے کی ذرا سی کوشش بھی پورے ملک میں آگ بھڑکا سکتی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ایجنڈے کے پراسرار حصے میں مولانا شیرانی کا خفیہ منصوبہ کیا تھا”۔
قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کے آئینے میں ڈھلے علماءکرام سے معاشرے کی قیادت اور بہتری کی طرف رہنمائی کی امید ہوتی ہے یہ پرفتن دور میں بھی ثابت قدم رہ کر قوم کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ہمارئے یہ علماء اس بات سے بھی لاپرواہ اور بے خبر ہیں کہ یہ ملک اور اس میں آباد لوگ گزشتہ ایک دہائی سے جن عناصر کی چیرہ دستیوں اور ہلاکت خیزی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں وہ اسی قسم کے عالموں اور مذہبی پیشو اوُں کی درس گاہوں سے تعلیم اور تربیت حاصل کر کے نکلتے ہیں اور جب کوئی اس طرف اشارہ کرنے کا حوصلہ کرتا ہے
تو یہ سارے دین فروش خونخوار انداز میں ان آوازوں کو دبانے کے لئے برسر جنگ ہوتے ہیں۔ اور جس وقت یہ دونوں علماء آپس میں دست و گریباں تھے تو کیا اُن تک مردان میں ہونے والی دہشت گردی کی خبر نہیں پہنچی ہوگی۔ گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل میں جو مناظرسامنے آئے وہ اسلامی نظریات کی ترجمانی نہیں بلکہ شدت پسندانہ کردار کے آئینہ دار ہیں۔ قوم اسلام کے نام پر دہشت گردی کے جن تکلیف دہ مراحل سے گزر رہی ہے اس میں ایسی محاذآرائی کی گنجائش نہیں جو معاشرے کو مزید تقسیم کر دے۔
تحریر : سید انور محمود