تحریر: عفت
٩ نومبر آئی اور خاموشی سے چلی گئی۔ہم اس بات پہ ہی لڑتے رہے کہ چھٹی ہوگی یا نہیں ہو گی۔اس دھما چوکڑی میں خیبر پختونخواہ نے حسب ِ سابق اپنا چاند دیکھ کر اپنی عید آپ منا لی ۔جب کہ اپوزیشن اور حکومت ہمیشہ کی طرح ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑنے میں لگی رہی ۔نجانے ہم کب بڑے ہوں گے اور اس سیاسی آپا دھاپی سے باہر نکلیں گے۔
حکومت نے جہاں اور چھٹیاں ختم کیں اب لے دے کے چند رہ گئیں تھیں سو اب ٩نومبر بھی اس کی نظر ہو گئی ۔بعض اوقات مجھے لگتا کہ ہم اپنی روایات اور اسلاف کے کارناموں کو ،یاد ماضی عذاب ہے یارب ،سمجھ کر جان بوجھ کر بھلانا چاہتے ۔یا پھر اپنے اعمال کی پردہ داری چاہتے ،یا ترقی کی دوڑ میں ہم بسنت اور ویلنٹائن ڈے تو منا سکتے مگر ان تمام لوگوں کے سفر کو رائیگاں کرنے پہ تلے ہیں جن کی بدولت ہم آزادی کی سانسیں لے رہے۔
ایک ہمارا زمانہ تھا جسے آجکل کے ماڈرن لوگ قدامت پسند کہتے۔ہر دن منایا جاتا تھا وہ یاداشتیں دہرائی جاتیں جو اس دن سے منسوب ہوتیں ملی نغموں کی آواز اور وطن کی محبت دل سے نکلتی اور روح کو گرماتی ۔اس کا فائدہ یہ تھا کہ بچوں کو اپنے اسلاف کا پتہ ہوتا اپنی تاریخ سے آگاہی ہوتی مگر اب ہم مہذب تو کہلا رہے مگر مغربیت کی آڑ میں نہ دل سے آواز نکلتی نہ ملک کی محبت روح میںاترتی دکھائی دیتی۔
یوم ِآزادی پہ پہلے ہم پرچم لگا لیتے ہیں پھر ان چھوٹی چھوٹی جھنڈیوں کو پیروں تلے روند دیتے ہیں ۔اقبال اور قائد کے بارے میں بس دو باتیں جانتے کہ ایک نے خواب دیکھا اور دوسرے نے تعبیر دی بس کام ختم ۔چند تعریفی لفظ یا ایک شعر ۔اے طائرِلاہوتی اس رزق سے موت اچھی ۔۔۔۔۔جس رزق سے ہوتی ہو پرواز میں کوتاہی ۔۔اس سے آگے سوچوں کو فل اسٹاپ لگا رکھا ہے ۔کیا قائد اور اقبال اسی کے مستحق ہیں یا یہ سیاست کی کرشمہ سازی ہے۔
شاید سیاست کا نصاب یہیں تک محدود ہے ۔ایک محفل میں ملک اور بیرون ِملک کے فرق کا تذکرہ چل رہا تھا ،ہماری شامت ِاعمال آئی کہ وفور ِشوق سے امریکہ پلٹ میزبان سے پوچھ بیٹھے جناب آپ کو پھر اپنا وطن یاد تو آتا ہوگا پردیس میں ؟ ہاں ہاں کیوں نہیں صاحب نے سر زور زور سے ہلایا۔
ہماری حبِ وطن کی سوئی جوش و ولولہ سے ہلی اور دوسرا سوال داغا کیا یاد آتا تھا سب سے زیادہ ؟ ارے بھائی میاں جب ہم پان کھا تے تو پچکاری مارنے کے لئے جگہ نہ ملتی ،جب سگنل پہ مجبوری رکنا پڑتا ،جب گاڑی مناسب رفتار سے چلانی پڑتی اور تو اور رفع حاجت کے لئے ایسی جگہ جہاں بغیر جرمانے ہم فراغت پا سکیں نہ ملتی تو ماں قسم پاکستاں بہت یاد آتا ان صاحب کے جواب نے ہمیں دکھ اور غصے سے ہمکنار کر دیا۔
حق ہا ،ری وطن کی محبت ۔کسی نے سچ ہی کہا ہے جیسی قوم ہوتی ہے اس پہ ویسے ہی حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں پھر واویلا کیوں ؟ چور اور گرہ کٹ بھائی بھائی۔در حقیقت دیکھا جائے تو آج جب ہم پرانے زبوں حالی والے دور میں واپس آرہے ہیں ہمیں اقبال و قائد کے فرمودات کی زیادہ ضرورت ہے ہماری نسل ِنو کو پھر سے شاہیں کے بال و پر درکار ہیں کہ پرواز کی بلندی ،تیز نگاہی، قناعت وفقر کی خوبیاں جنم لیں سکیں۔مگر وہ کیا ہے نا کہ ؛بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ؛لیکن جو کچھ بھی ہے اس کے قطع نظر کہیں کہیں وطن کی محبت سے دل زندہ ہیں ۔کہیں کہیں آج بھی آواز اندر سے نکلتی ہے کہ ۔ابھی ہے جذبہ تعمیر زندہ ، ،تو پھر کس بات کی ہم میں کمی ہے۔
ہم آج بھی اپنے قائد سے اپنے اقبال سے محبت کرتے ہیں ۔زباں پہ تالے ہیں تو کیا ہوا دل کی آواز تو ان تک جاتی ہے نا ۔ہم مجبور ہیں تو کیا ہوا انہیں یاد تو کرتے ہیں۔چھٹی ملے نہ ملے ہم ان کے ہیں اور وہ ہمارے ہیں ہمیں سیاسی دائو پیچ نہیں آتے مگر ہمارے دل میں قدر اور سچائی کے چراغ روشن ہیں ۔تو اے قائد و اقبال کی روحو مت سمجھو ہم نے بھلا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: عفت