تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
روزِ اول سے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کئی انسان اس کرہ ارض پر پیدا ہو تے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پیوند خاک ہو جاتے ہیں زیادہ تر انسان تو افزائش ِ نسل کے بعد ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجا تے ہیں لیکن انسانوں کی اِس آمدورفت میں کچھ خوش قسمت انسان ایسے بھی اس رنگ و بو کی دنیا میں سورج کی طرح طلوع ہو ئے اور ان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ اس ایک لمحے نے ان کو گمنامی کے اندھیرے غاروں سے نکال کر ایسی ابدی شہرت سے ہمکنار کیا کہ قیامت تک آنے والے انسان اور بڑے بڑے اولیاء کرام بھی اس کی لازوا ل شہرت پر رشک ہی کرتے رہے گے ایسا ہی ایک لازوال اور ان مٹ شہرت اور عروج کا لمحہ آج عرب میں قبیلہ بنو سعد کی حلیمہ سعدیہ پر بھی آیا ایک ایسا لمحہ جو اسے قیامت تک کے لیے لا زوال شہرت سے نواز گیا۔
شرفائے عرب کا عرصہ دراز سے یہ دستور تھا کہ وہ اپنے نو مولود بچوں کو بھر پور نشوونما اور عربوں کی فطری خصوصیات اور فصاحت زبان کے لیے بدوی قبائل میں پر ورش کے لیے بھیج دیا کر تے تھے تاکہ فطری اور صحرائی ماحول میں بچوں کی نشوونما بہتر طریقے سے ہو سکے یہ عورتیں سال میں دو با ر شیر خوار بچوں کی تلاش میں مکہ آتیں آج بھی یہ عورتیں جن میں حلیمہ سعدیہ بھی شامل تھیں مکہ میں آئی ہوئی تھیں۔ اِس خدمت کے عوض بچے کا باپ اِن کے قدموں میں دولت کے انبار لگا دیتا ۔ حلیمہ سعدیہ اپنے شوہر حارث بن عبدالغری کے ساتھ آئی ہو ئی تھیں۔ ایک روایت میں ہے حضرت حلیمہ فر ماتی ہیں، جب میں مکہ پہنچی تو حضرت عبدالمطلب مجھے ملے انہوں نے پو چھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا میں بنی سعد کی خاتون ہوں تو انہوں نے پو چھا تو میں نے اپنا نام بتایا میرا نام سن کر حضرت عبدالمطلب مسکرائے اور فرمایا۔ واہ واہ سعد اور حلم کیا کہنا یہ دو وہ خوبیاں ہیں جن میں زمانے بھر کی بھلائی اور ابدی عزت ہے، پھر فرمایا میرے ہاں ایک یتیم بچہ ہے کسی نے اُسے یتیم ہو نے کی وجہ سے نہیں لیا، کیا تم اس کو گود لینے کو تیارہو ؟ کیا تم میرے پو تے کو دودھ پلانے کو تیار ہو، ہو سکتا ہے کہ اس کی برکت سے تیرا دامن یمن و سعادت سے لبریز ہو جائے۔
میں نے اپنے خاوند کی طرف مشورے کے لیے دیکھا اللہ تعالی نے میرے خاوند کے قلب کو بچے کی محبت سے سر شار کر دیا اُس نے فوری کہا حلیمہ دیر نہ کر و فوراً بچہ لے لو ۔ لہذا میں نے حضرت عبدالمطلب سے درخواست کی کہ بچہ مجھے دیں میں اس کو دودھ پلانے کو تیار ہوں تو سردار قریش مجھے حضرت آمنہ کے گھر لے گئے حضرت آمنہ نے مجھے خوش آمدید کہا اور اُس کمرے میں لے گئیں جہاں ملکوتی حسن اور روشن چہرے والا نو ر نظر لیٹا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دودھیا ریشمی کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبز ریشمی چادر کے اوپر آرام فرما رہے تھے ۔ عنبر کستوری کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملکوتی مکھڑے کو دیکھتے ہی میں تو فریفتہ ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور سے رنگ و نور کے چشمے پھوٹ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر دلنواز تبسم پھیلا ہوا تھا مجھے ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگا دو پھر میں نے ہمت کر کے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر رکھنے کی سعادت حاصل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرمگیں آنکھیں کھولیں اور جانے ِ دو جہاں کے چہرہ انور پر مسکراہٹ کے پھول کھلنے لگے مجھے محسوس ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے انوار کے آبشار پھوٹ رہے ہیں۔
جو زمین و آسمان چاروں طرف پھیل رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن لا زوال کی چکا چوند نے میری آنکھوں کو خیرہ کر دیا میرے خون کی گردش تیز ہو ئی اور میں نے بے اختیار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روشن ملکوتی ماتھے مبارک کا بو سہ لیا اور اٹھا کر اپنے سینے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انوار سے منور کیا اور سینے سے لگا لیا اور مالکِ دو جہاں ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر اپنے خاوند کے پاس آگئی حضرت حلیمہ مزید فرماتی ہیں کہ اِس دولتِ جہاں کو اٹھائے ہو ئے اپنے خیمے میںآگئی تو میں نے دودھ پلانے کے لیے اپنی دائیں چھاتی پیش کی ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جتنا پینا چاہا پی لیا پھر میں نے اپنی بائیں چھاتی پیش تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پینے سے انکار کر دیا۔
یقینا مالک بے نیاز نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الہام کیا ہو گا کہ تیرا ایک اور بھا ئی بھی ہے اِس کے لیے انصاف کر یں اور باقی دودھ اپنے بھائی کے لیے رہنے دیں بلا شبہ جس ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے جا کر پو ری انسانیت کو عدل و انصاف کا درس دینا ہو اس کا مالک یہ کیسے گوارہ کر ے کہ اُس کے دامن پر چھوٹی سے چھوٹی بھی بے انصافی ہو ننھے سردار ۖ کے دودھ پینے سے پہلے حضرت حلیمہ سعدیہ کی چھاتیوں میں برائے نا م ہی دودھ تھا لیکن ننھے حضور ۖ کے مبارک لبوں کے چھونے کی دیر تھی کہ چھاتیا ں دودھ سے لبا لب بھر گئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رضائی بھائی نے بھی جی بھر کے دودھ پیا رات کو میرا بیٹا بھی خوب پر سکون سو یا۔
رات کو میرا خاوند جب بوڑھی لاغر اونٹنی کے پاس گیا تو خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا کہ اس کمزور اونٹنی کی کھیری دودھ سے بھری ہوئی ہے اس نے خوشی خوشی اِسے دھویا خود بھی جی بھر کر دودھ پیا اور مجھے بھی خوب پلایا ۔ ہم سب کی بھوک مٹ چکی تھی لہذا ہم خوب پر سکون ہو کر سوئے صبح جب ہم بیدار ہو ئے تو میرا خاوند خوشی سے سر شار لہجے میں بولا ۔ بخدا اے حلیمہ ہمیں سرا پا یمن و بر کت وجود نصیب ہوا تو میں نے کہا میں بھی یہی امید رکھتی ہوں ۔ واپسی پر حضرت حلیمہ فرماتی ہیں جب میں ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گود میں اٹھا کر اپنی کمزور لاغر بوڑھی سواری پر چڑھی تو وہ بہت چست ہو گئی اور اس کے انگ انگ سے توانائی چھلکنے لگی اور وہ سینہ تان کر چلنے لگی جب ہم کعبہ کے سامنے پہنچے سواری نے تین سجدے کئے اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا یا اورپھر دوسرے جانوروں سے زیادہ رفتار سے بھاگنے لگی آپ فرماتی ہیں کہ میری سواری تمام قافلے والوں کی سواریوں کی نسبت کمزور اور سست تھی مگر جیسے ہی ننھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر سوار ہو ئے تو وہ برق رفتاری سے دوڑنے لگی تو قافلہ کی عورتیں حیران ہو کر بولیں اے حلیمہ کیا۔
تم اِس پر سوار ہو کر آئی تھیں اس وقت اتنی سست تھی کہ سب سے پیچھے تھی آج سب سے آگے ہے تم نے آج کو نسا عظیم کام کیا ہے یہ قافلہ ننھے سردار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر بنی سعد کی طرف رواں دواں تھا کہ راستے میں انہوں نے کچھ بکریوں کو چرتے ہو ئے دیکھا تو اُن بکریوں کو قدرت نے قوت گو یائی عطا کی اور وہ احتراماً بولیں اے حلیمہ تو اِس بچے کو جانتی ہے یہ مالک دو جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولادِ آدم کا سردار اور جن و انس سے بہتر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا ۔ آگے جب وادی حبشہ میں پہنچے تو وہاں پہلے سے ٹھرے ہو ئے عالموں نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر کہا بے شک یہ لڑکا خدا کا آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور آگے بڑھے تو وادی ہوا زن میںبھی ایک بوڑھا آدمی نظر آیا اُس کی نظر جب ننھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس پر پڑی تو وہ بولا یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اِنہی کے پیدا ہو نے کی بشارت حضرت عیسٰی نے دی تھی۔
دوران سفر ننھے حضور مالک دو جہاں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر جہاں جہاں پڑتی، جہاں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے وہ جگہ سر سبر و شاداب ہو جا تی حضرت حلیمہ فرماتی ہیں جب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر اپنے علاقے کی طرف چلی تو جہاں جہاں سے گزرتی وہ علاقہ سر سبر و شاداب ہو جا تا راستے میں جو بھی درخت آیا اُس نے جھک کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا اور اُس کا سایہ احتراما ً آپ ۖ کی طرف جھک جا تا ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات اور جلوئوں کا نظارہ کر تے کر تے جب اپنی آبادی میں پہنچے تو ہر گھر سے کستوری کی خوشبو آنے لگی اور تمام علاقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے مہک اٹھا مشکبو ہوا ئیں عطر بیز فضائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنے کی خوشی میں خوشی سے جھوم رہی تھیں زمین سے آسمان تک رنگ و نور اور انوار کی برسات ہو رہی تھی۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956