تحریر: ایم سرور صدیقی
پریشان ہونا یقینی بات ہے جب اپنا تحریر کردہ کالم کسی اور کے نام پر چھپاہوا دیکھتا ہوں
دل سے یہی نکلتا ہے
عدم ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
۔۔۔ یار اتنی دیدہ دلیری تہ چور ،ڈاکو بدمعاش بھی نہیں کرتے ہوں گے حالانکہ سجاد حیدر یلدرم نے تو کہا تھا مجھے میرے دوستوں سے بچائو جن کی وقت بے وقت کی ملاقاتوں سے ایک نستعلیق سے ادیب کا جینا حرام ہو گیا تھا لیکن کوئی مشورہ دے سکتا ہے ہم کیا کریں۔۔ ۔کوئی تدبیر سوجھتی ہے نہ کوئی طریقہ ہی ذہن میں آرہاہے۔۔۔دراصل ہم ان دنوں پریشان اس لئے ہیں کالم چوروں نے ہمیں اپنا ہدف بنا رکھاہے۔ لاہور ،اسلام آباد ،ایبٹ آباد، پشاور اور فیصل آباد کے کتنے ہی روزنامے ہیں جن میں ہمارے کالم دوسروں کے نام سے بڑے دھڑلے سے چھپ رہے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہم ان سرقہ کرنے والوں کا کچھ بھی بگاڑ سکتے۔۔۔ ہمارے کئی کرم فرما فون کرتے ہیں کہ فلاں اخبار میں کالم آپ کے لوگو کے ساتھ چھپا ہے لیکن وہی کالم ایک اور اخبار میں اگلے چند روز بعد کسی اور کے نام سے چھپ گیا ۔۔۔یہ کیا چکرہے؟ اب ہم کیا بتائیں کہ ہم تو کافی مہینوں سے پریشان ہیں بلکہ اپنے کالم کسی اور کے نام پر چھپنے پر ہمیں چکر پہ چکر آتے رہتے ہیں اور ہم فریاد کرتے ہیں۔
الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ ۔۔۔۔ویسے یہ کالم چور ہیں بڑے ”بھولے”یا پھر حد درجہ” ایماندار”۔۔۔ سیم ٹو سیم وہی الفاظ ۔۔وہی ترتیب۔۔۔حتیٰ کہ عنوان بھی وہی۔۔کیا مجال ایک لفظ بھی اِدھر ادھر ہوجائے یا شاید پھروہ نقل کیلئے عقل کا استعمال کرنے کے بھی قائل نہیں۔۔۔ایک مرتبہ ” یادوں کی برات” والے جوش ملیح آبادی کسی مشاعرے میں شریک تھے ان کی موجودگی میں ایک غیر معروف شاعرنے ان کی ایک نظم بڑی ٹھاٹھ سے سناڈالی جس پر داد تو بہت ملی لیکن جوش ملیح آبادی کو بہت غصہ آیا۔۔۔انہوں نے شاعر کے قریب جاکر پوچھا کیوں میاں صاحبزادے ے کیا حرکت کی؟۔
کون سی کیسی حرکت؟شاعرنے بھولے پن سے جواب دیا۔۔۔کمال ہے جوش ملیح آبادی نے کہا میری نظم میرے ہی سامنے پڑھ ڈالی اور کہتے ہو کون سی حرکت؟ دیکھئے۔۔ غیرمعروف شاعرنے کہا۔۔۔ہو سکتاہے آپ کے اور میرے خیالات ٹکرا گئے ہوں دیکھ بے ۔۔۔جوش ملیح آبادی نے اس کا شانہ جھنجھوڑتے ہوئے کہا کبھی جہاز اور سائیکل کی بھی ٹکر ہوئی ہے۔۔ خیریہ تو شاعر ِ انقلاب تھے۔۔یقینا ہماری طرح کئی کالم نگار۔۔ایسے سرقہ کرنے والوں سے تنگ ہوں گے اس لئے کالمسٹ ایسوسی ایشن کو اس بارے کوئی لائحہ ٔ عمل تیارکرنا چاہیے کیونکہ ہم تو ان سرقہ کرنے والوںکا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔۔اسی حسب ِ حال کا ایک پنجابی شعر ذہن میں آرہاہے۔
منگویں دیوے روشن کر کے اوہ ذہناں دیاں قبراں تے
شاعر نئیں پر شاعر بن کے پھردے روز ادیباں نال
ویسے یہ کتنی عجیب بات لگتی ہے کسی کی محنت کوئی دوسرا ہتھیا لے اور حقدار منہ دیکھتا رہ جائے شاید اسے چوری اور سینہ زوری کہا جا سکتا ہے چوری کالم کی ہو، مال اسباب کی پا پھر نوٹوں یا ووٹوں کی چوری ہی کہلائے گی یہ جو آج کل دھرنے دئیے جارہے ہیں، جلسے جلوس نکالے جارہے ہیں اس کے پیچھے بھی چوری کار فرما ہے عمران خان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے دھاندلی کر کے الیکشن چرایا ہے ہم اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔۔ ۔عمران خان اور ان کے ساتھی تو مسلسل دو ماہ سے روزانہ دھرنا دئیے جارہے ہیں ا ور ہم کالم چرا کر اپنے نام پر چھپوانے والوں کی اس قبیح حرکت پر رولاہی ڈال سکتے ہیں دھرنا دینے کی سکت ہم میں نہیں کہ پہلے دھرنا دینے کا خیال ہی آیا تھا لیکن کسی سیانے نے سمجھایا کہ اگر عمران خان اور ڈاکٹرطاہرالقادری کی دھرنوں کی طرح یہ دھرنا پھیلتاہی گیا تو پھر کیا کروگے؟۔
ہم ڈر گئے کہ کہیں دھرنا گلے ہی نہ پڑ جائے۔۔۔اورپھر خوفزدہ ہوکر ایسا کرنے کا ارادہ ترک کردیا ایک بارہم نے کالم چوروںکی گوشمالی کیلئے ان کی تصویروں پر نظر دوڑائی یقین جانئے انہوںنے ایسے ایسے اندازسے پوزبنائے ہوئے تھے جیسے وہ سقراط، بقراط یا ارسطو کے ہم پلہ ہوں یا پھر علامہ اقبال نے ان سے انداز مستعار لے رکھا ہو نام بھی ایسے فصیح، بلیغ اورنادر کہ جیسے دستار ِ فضیلت کے حقدارہوں پھر دل نے کہا دوسروںکا حق مارنے والے اتنی عزت کے حقدارتو نہیں ہو سکتے ان کو تو ناک ڈبونے کیلئے چلو بھر پانی ہی کافی ہوتاہے۔۔۔جیسے ایک سیاستدان نے کہا تھا ڈگری ۔۔ ڈگری ہوتی ہے اصلی یا نقلی کیافرق پڑتاہے لگتاہے کالم چوروں کا بھی یہی مسلک ہے۔۔۔خیر یہ تو ہمارا اپنا رونا تھا جب تک لکھنے لکھانے کا شوق ہے ان سرقہ کرنے والوں سے پالا تو پڑتے رہنا یقینی ہے۔
لیکن اس خوف سے اپنا مشن ترک کرنا کوئی دانشمندی نہیں ان چوروں پر چارحرف بھیج کر لکھتے رہنا چاہیے صبح لکھنا ۔۔۔شام لکھنا۔۔۔ عمر اپنی تمام لکھنا۔۔۔کہ یہی زندگی کی علامت ہے اور سرقہ کرنے والے بے علامت لوگ جو ساری زندگی نقل مارنے کے باوجود اپنی ذات میں صلاحیت پیدا کرنے سے قاصررہتے ہیں کیونکہ کاغذ کے پھولوں سے خوشبو کی خواہش رکھنے والوںکا یہی حشر ہوتا ہے اور یہی انجام۔۔۔وقتی طورپر تو ان کی واہ واہ ہوسکتی ہے لیکن جب حقیقت عالم پر کھلتی ہے تووہ دلوں سے اتر جاتے ہیں اور قارئین ایک دوسرے کو Messag کر کے کہتے ہیں فلاں کو نہ پڑھو ۔۔۔اعتبار مت کرنا یہ تو کالم چور ہے۔۔اگر کسی محفل میں یہی بات کوئی منہ پرکردے تو کیاحالت ہوگی۔۔کیا درگت بنے گی ۔۔کبھی سوچاہے سرقہ کرنے والو۔۔۔
سجاد حیدر یلدرم نے توکہا تھا مجھے میرے دوستوں سے بچائو ہم کہتے ہیں ان نقلچو چوروں سے بچائو جو ہماری” کمائی”پر قبضہ کررہے ہیں قبضہ گروپ کہیں کے۔۔۔کہتے ہیں گرمیوں میں چیزیں پھیلتی ہیں اور سردیوں میں سکڑ جاتی ہیں شاید اسی بناء پر آج کل دھرنے سکڑ سکڑ سے گئے ہیں جبکہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی دھواں دھار تقریروں نے سیاسی ماحول گرما دیا ہے شاید اسی لئے بڑے بھرپور جلسے ہورہے ہیں نئے نئے نعرے ایجاد کئے جارہے ہیں۔۔۔نغمے گائے جارہے ہیں شرکاء رنگ برنگے لباس زیب ِ تن کرکے شریک ہوتے ہیں تو جیسے بہار کا گماں ہونے لگتاہے عمران خان مبینہ طورپرالیکشن چرانے والوںکے خلاف سراپااحتجاج بنے ہوئے ہیںمیاں نوازشریف کا کہناہے ہم نے ووٹ نہیں۔
چرائے قوم نے ہمیں ہیوی مینڈیٹ دیاہے یہ سیاسی معاملات اپنی جگہ پر ہمیں اس سے کیا لینا دینا سیاست ۔۔۔تو سیاستدانوںکا کام ہے برسرِ اقتدار ہر سیاستدان ہمیشہ ملک وقوم کی خدمت کے لئے سیاست میں آتاہے مخالفین جیلس ہوکر الزامات لگاتے رہتے ہیں بے صبرے! 5سال آرام سکون سے عوام کی خدمت بھی نہیں کرنے دیتے۔۔
۔لیکن ہم کیا کریں اگر کالم چرانے والے یہ کہنا شروع کردیں ہم نے سرقہ نہیں کیا کالم اچھا لگا دل نے ہیوی مینڈیٹ دیدیا ہم نے اپنے نام کے ساتھ چھپوالیا۔۔۔ایویں رولا کیوں ڈالا ہوا ہے؟ ۔۔۔شورکس بات کا؟ تم اور کالم لکھ لو ہم نے تمہیں کیا روک رکھاہے کالم ہی اپنے نام چھپوا یاہے کوئی نوٹ تو نہیں چھینے ۔۔۔کوئی ووٹ تو نہیں چھینے ۔۔جو عمران خان کی طرح تلملاتے پھرتے ہو سرور صدیقی ! تم کالم نگار نہیں سیاستدان لگتے ہویہ کالم نگاری چھوڑو اور سیاست کرو ۔۔۔سیاست یا پھر اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہرالقادری یا عمران کہیں دھرنا دیں تو وہاں چلے جانا اور حلق پھاڑ کر نعرہ کہنا۔۔انقلابیو! تمہیں ایک اور ساتھی مبارک ہو۔۔۔
تحریر: ایم سرور صدیقی