counter easy hit

ہمیں انصاف چاہیے۔

Hanging

Hanging

تحریر:ابنِ نیاز
قرطبہ کے قاضی یحییٰ بن منصور کے انصاف کا واقعہ شاید ہر پڑھے لکھے باشعور پاکستانی نے پڑھا ہو گا، سنا ہو گا۔ جب اس کے بیٹے سے قتل کا ایک جرم سرزد ہو گیا۔ کہاں کہاں سے سفارشیں نہیں آئیں۔ اس عورت نے ان کی منتیں کیں جس نے ان کے بیٹے کو پالا تھا۔ پورے کا پورا شہر اس حق میں بالکل نہیں تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ پھر اس لڑکے کے دیگر ساتھی پورے شہر کو خون میں نہلا دیتے۔ گلیوں کی گلیاں اجاڑ دیتے۔ نہیں، بلکہ اس لیے کہ پورا شہر سمجھتا تھا کہ زبیر نے یہ قتل برابر کی لڑائی میں کیا تھا۔ لیکن قاضی صاحب ہر گز نہ مانے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو موت کی سزا سنائی۔ پورے شہر میں ان کے بیٹے زبیر کو پھانسی دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔قاضی نے فتویٰ تو دے دیا تھا، لیکن اس پر عمل کون کرے، یہ کسی کو بھی گوارا نہ تھا۔ اگرچہ پھانسی کے وقت تمام شہر مرکزی چوک میں کھڑا تھا۔ لیکن کوئی بھی قدم آگے نہیں بڑھا پا رہا تھا۔ جب قاضی ایک سرکاری افسر کو کہتا ہے تو افسر کہتا ہے ان کے بیٹے کو پھانسی دینے سے پہلے وہ خود سولی پر کیوں نہ چڑھ جائے۔جب وقت قریب پہنچا اور کوئی بھی تیار نہ ہوا تو قاضی یحییٰ بن منصور خود آگے بڑھے اور اپنے بیٹے کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔

دوسری طرف ہمارے اس پیارے وطن میں ایک سولہ سالہ طالب علم کو ایک بڑے آدمی کی گاڑی ٹکر مار جاتی ہے۔ دسیوں گواہ بھی ہوتے ہیں۔ اور باقاعدہ پولیس کے سامنے گواہی دیتے ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اس بدمست نے اپنے گارڈ کے ساتھ مل کر زین نامی طالب علم پر فائرنگ کی تھی۔ کمال کی بات ہے، جب کیس عدالت میں پہنچا تو کیس پوری طرح تیار تھا۔پولیس نے کیس کو بہت مضبوط بنایا ہوا تھا۔ گواہوں کے بیانات ساتھ لف تھے۔ یہاں تک کہ مجرم کا کہنا تھا کہ پولیس لواحقین کے ساتھ مل کر اسے اور اس کے گارڈ کو اس کیس میں ناحق پھنسا رہی تھی۔ پھر دیر کسی بات کی ہوئی۔دس ماہ تک جب مقدمہ چلتا رہے، اور گواہان کو ہر بار گواہی کے لیے بلایا جائے، جب کہ وہ صرف گواہی دینے کی وجہ سے اپنے ضروری کام کاج بھی نہ سر انجام دے سکیں تو پھر کون گواہی کے لیے تیار ہو گا۔

اس کے بعد جب ان میں سے بھی کچھ گواہ آخر تک ساتھ نبھانے کی خاطر بھرپور تیاری میں ہوتے ہیں تو اچانک ساری کایا پلٹ جاتی ہے۔گواہان مکر جاتے ہیں۔ پولیس کاغذات میں کہانی ہی بدل جاتی ہے۔ اور ملزم بلکہ مجرم بری ہو جاتا ہے۔ مجرم نے ہر سطح پر اپنے جرم سے انکار کیا۔ اس کے مطابق زین ان کی فائرنگ سے ہر گز نہیں مارا گیا۔ اگر مجرم کی یہ بات درست مان لی جائے تو پھر فرانزک لیبارٹری کی اس رپورٹ کا کیا کریں گے جس میں گارڈ کی شرٹ پر لگے خون کے داغ کا گروپ زین کے گروپ سے میچ کر گیا۔گاڑی میںلگے خون کے داغ بھی زین ہی کے تھے۔اصولی طور پر تو یہ ایک ہی ثبوت کافی تھا۔ جب گواہوں نے پہلی بار گواہی دی تو وہ گواہی کافی ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن ستم بالائے ستم، ہمارے ملک کا قانون ہے تو بہت مضبوط، لیکن ایک معمولی ، انتہائی معمولی نقطے کو پکڑ کر مخالف وکیل پورے کیس کی دھجیاں اڑا لیتا ہے۔ ادھر بھی یہی ہوا۔ عدالت تو مکمل ثبوت مانگتی ہے، جب ثبوت نامکمل تھے، تو ملزم بری ہو گیا۔آج اس کی ماں کہتی ہے کہ اس نے مجرم کو معاف ہر گز نہیں کیا، لیکن قانونی دائو پیچ کے سامنے وہ ہار گئی ہے۔

ویڈیو ثبوت ہمارے سامنے ہے۔ جب ایک مشہور ماڈل ایئرپورٹ پراپنے ایک ساتھی کے ساتھ، جس کو ملک کے ایک سابق صدر کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے پانچ لاکھ امریکی ڈالر ملک سے باہر لے جاتے ہوئے گرفتار کی گئی۔ جس کسٹم انسپکٹر نے گرفتار کیا، اس نے بہت سے ثبوت پیش کیے۔ جب گواہی دینے کی باری آئی تو شہنشاہ کی طرح اسے بھی دنیا سے رخصت کر دیا گیا۔ چودہ مارچ کو گرفتار ہونے سے لیکر چودہ جولائی ٢٠١٥ کے چار ماہ تک مختلف حوالوں سے بقول ماڈل کے اس کو تنگ کیا جاتا رہا۔ اس پر مختلف قسم کے دبائو ڈالے جاتے رہے کہ وہ اپنے جرم کو مان لے۔ اس جرم کو جو اس نے کیا ہی نہیں۔ چار ماہ تک اسے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا۔ کیا پاکستانی پولیس یا قانون اتنا ہی اندھا تھا کہ ایک خاتون کو بنا کسی وجہ کے ساری دنیا کے سامنے جیل میں ڈال رکھا ہے اور اس کا قصور ہی کوئی نہیں۔ ماڈل صاحبہ کا کہنا تھا کہ اس پر جیل میں بہت دبائو ڈالا گیا۔ مختلف حیلے بہانوں سے انجان لوگ اس سے ملنے کے بہانے آتے رہے اور اس کو اپنا جرم ماننے کا کہتے رہے۔ اس کو کال کوٹھڑی میں بھی رکھا گیا۔ کیا یہ سچ ہے؟ جب کہ ہم نے میڈیا پر دیکھا، اخبارات میں پڑھا کہ اس کو تو وہاں پر نیٹ کی ، موبائل کی، میک اپ تک کی سہولت موجود تھی۔ کیا سب نہیں دیکھتے تھے کہ وہ جب عدالت میں پیشی پر جاتی تھی تو کس قدر تر و تازہ نظر آتی تھی۔ ہاتھ میں اس کے موبائل ہوتا تھا اور کسی نہ کسی سے باتیں کرتی ہوئی جاتی تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ سادہ سا لباس پہن کر عدالت جاتی، اس کا لباس اس وقت بھی اگر لاکھوں روپے کی مالیت کا نہ سہی تو پچاس ساٹھ ہزار سے کیا کم ہو گا۔ باالآخر ضمانت پر اس کو رہا کر دیا گیا۔ شروع میں اسکا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔ لیکن پھر کیاہوا؟ شاید میرے جیسا میڈیا اخبارا ت سے دور رہنے والے کو کچھ بھی نہیں معلوم۔

حضرت عمر فاروق کا بیٹا شراب پینے کے جرم میں گرفتار ہوا۔ اس پر حد جاری ہوئی۔ خلیفہ وقت نے خود اپنے ہاتھوں سے اس پر کوڑے برسائے۔ کوڑے مارنے کے دوران ہی بیٹے کی روح نکل گئی، لیکن انصاف کا تقاضا پورا کرنا تھا۔ انھوں نے اس کی نعش پر کوڑوں کی تعداد پوری کی۔ جب تک وہ خلیفہ تھے، تب تک ان کے ہاتھ نہیں کانپے۔ جب بیٹے کی نعش گھر لائی گئی، یہ گھر پہنچے تو بیٹے کی نعش کے قریب بیٹھ کر آنسو بہانے لگے۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا؟ اس وقت تو چہرہ پتھر کی طرح سخت تھا اور اب یہ حالت کیوں؟ فرمایا، تب میں اللہ کے حکم کی پاسداری کر رہا تھا۔ اگر میرے ہاتھ بھی لرز جاتے حکمِ خدا کی تکمیل میں تو میدانِ حشر میں خدا کو کیا کیا جواب دیتا۔ اب میں بحیثیت باپ کیا اتنا بھی اختیار نہیں رکھتا کہ افسوس کا اظہار بھی نہ کر سکوں؟ انہی خلیفہ کے دور میں حضرت عمروبن العاص کے بیٹے نے ایک شخص پر اس وقت ظلم کیا جب حضرت ابن العاص گورنر تھے۔ وہ شخص شکایت لے کرخلیفہ کے دربار میںپہنچا۔ حضرت عمر فاروق نے دونوں باپ بیٹے کو مدینہ بلایا۔ پہلے اس شخص کو اس بیٹے سے بدلہ لینے کو کہا جس کا باپ گورنر تھا۔ جب بدلہ ہو چکا تو حضرت عمر فاروق نے مشہور جملہ ارشاد فرمایا : ” اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، جب کہ ان کی مائوں نے ا نکو آزاد جنا تھا۔” کیا آج کے دور میں کوئی ایسا ہو سکتا ہے جو بنا دیکھے کہ جرم کرنے والا کون ہے، صرف ایک مضبوط ثبوت کی بنا پر مجرم کو شہر کے مرکزی چوک میں پھانسی پر لٹکائے۔ ہے کوئی ایسا انصاف کرنے والا! نہیں ہر گز نہیں!

جب تک مدعی کے مقدمے کو اسکے پوتوں تک نہ پہنچایا جائے گا، تب تک وہ مقدمہ کیسے کہلائے گا۔جب تک گواہوں کو دھمکایا نہ جائے گا، مقدمے کے کاغذات کو ردی میں ڈال کر انگاروں میں سرخا نہ جائے گا، وہ مقدمہ کیسے کہلائے گا۔ اگر پاکستان میں مقدموں کا فیصلہ دنوں اور ہفتوں میں ہونے لگے تو پھر وکیلوں کا گھر کیسے چلے گا؟ اگر یہ وکیل وقت پر عدالت پہنچیں، اپنے مؤکل کو بر وقت حاضری کا کہیں، لفظوں سے کھیلنے کی بجائے سیدھا سیدھا مقدمہ پیش کریں۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ جج کو فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش آئے۔ یاد نہیں کونسا ملک ہے، امریکہ، برطانیہ ، فرانس، جرمنی یا کوئی اور۔ ایک واقعہ یادآگیا۔ ایک لڑکی کی جب اس کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی، عزت لوٹی گئی۔ اس کو اس وقت سمجھ نہیں آئی تھی کہ اسکے کیا کرنا چاہیے۔ بعد میں بارہ سال بعد جب اس کی شادی ہوئی۔ اس نے اپنے شوہر سے ذکر کیا ۔ یہ اگر پاکستانی معاشرہ ہوتا تو شوہر نے اس کو طلاق دینے کی بجائے گولی سے اڑا دینا تھا۔ جب کہ اس غیر مسلم شوہر نے اس کو تسلی دی کہ جو ہو گیا ہوگیا، انکی زندگی میں اس بات کی بنیاد پر کوئی مسلہ نہیں ہو گا۔

پھر وہ شوہر اپنی بیوی کو عدالت لے گیا۔ بارہ سال پہلے والے حادثے کا ذکر کرتے ہوئے انصاف حاصل کرنے کی خاطر مقدمہ دائر کر دیا۔اگر پاکستان یا ہندوستان ہوتا تو ہمارا قانون ٹائم بار (یعنی بہت وقت گزر چکا ہے، سارے ثبوت مٹ چکے ہیں )کہہ کر کبھی بھی مقدمہ درج نہ کرتا۔ خیر وہاں مقدمہ درج ہوا۔ لڑکی کے ٹیسٹ کیے گئے۔ حیران کن بات ہے کہ بارہ سال پرانے ڈی این کے ٹیسٹ بھی ہوئے۔ جس شخص نے اس کی عزت لوٹی تھی چونکہ لڑکی نے اس کا نام اور پتہ تک دیا تھا، اس کو لایا گیا۔ اس کا ٹیسٹ بھی کیا گیا۔ لڑکی کی غیر موجودگی میں اس سے پوچھا گیا، تو تھوڑی سی تفتیش کے بعد وہ مان گیا کہ اس نے یہ غلطی کی تھی۔ کیا فیصلہ ہوا؟ وہ لڑکی جیت گئی۔بارہ سال بعد اس کو انصاف ملا۔ اس شخص کو سزا ہوئی ۔ جتنی بھی ہوئی وہ اس ملک کے قانون کے مطابق تھی۔ مقدمہ دائر کرنے سے لی کر فیصلہ ہونے تک صرف دو ہفتے لگے۔

پاکستان میں ہمیں حضرت عمر فاروق جیسے حکمران کی ضرورت ہے۔ ہمیں یحییٰ بن منصور جیسے قاضی کی ضرورت ہے۔ اور ضرورت ہے تو ایسے نظام کی جو ہر پست کو بالا کر دے۔ اور وہ نظام ہے صرف اسلام کا نظام۔ جو اس کو قائم کرے گا، چاہے وہ جناب نواز شریف صاحب ہوں، یا کوئی اور، اللہ کے دربار میں موجود اٹھارہ کروڑ پاکستانی اس کے حق میں گواہی دیں گے۔ وہ گواہی دیں گے کہ اس شخص نے اللہ کے دیے ہوئے پیارے پاکستان میں اس وقت اے اللہ،آپ کے دین پر عمل پیرا ہونے کا اعلان کیا تھا، جب ہر سو ، چار سو افرا تفری، بے امنی، دہشتگردی، بے حیائی، اپنے پورے عروج پر تھی۔ تب اس آپ کے بندے نے ہمیں صراطِ مستقیم پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ خود بھی اس راہ کا مسافر ہوا، اور ہمیں بھی اپنی اقتداء میں چلنے کا حکم دیا۔ اے اللہ اس کی مغفرت کیجئے۔ سوچئے کون یہ کامیابی نہ حاصل کرنا چاہے گا؟ ضرور سوچیے۔

Ibn e Niaz Logo

Ibn e Niaz Logo

تحریر:ابنِ نیاز