تحریر: پروفیسر مظہر
پاک چائنا اکنامک کاری ڈور لبِ مرگ معیشت کو فضائے بسیط کی رفعتوں سے روشناس کرانے والا ایسا منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے اشرافیہ کی تجوریاں تو لبالب ہوں گی ہی ،راندہ ودرماندہ اور مجبوروں مقہوروں کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔ اس لیے اہلِ نظر کا یہ فرضِ عین کہ وہ ربِ علیم وخبیر کی ودیعت کردہ دانش کو بروئے کارلاتے ہوئے جہاد بالقلم سے قوم کو یکسو کریں اور ان طاغوتی طاقتوں کو نیست ونابود کرنے میں معاون بنیں جو اِس اقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ پاک چائنااکنامک کاریڈور پاکستان کے ازلی ابدی دشمن بھارت کوقبول نہ دوست نمادشمن امریکہ کو۔ بھارت تو کھلم کھلااِس منصوبے کی مخالفت کررہا ہے اوراپنے خفیہ اداروں کو اِس منصوبے کے خلاف فضاء تیارکرنے کی حکمت عملی وضع کرنے کاکام بھی سونپ دیا۔ امریکہ البتہ تاحال کھل کرمیدان میں نہیں آیا، وہ صرف بھارت کی پیٹھ ٹھونکنے پرہی اکتفا کر رہا ہے۔ دونوں کو ہی دفاعی لحاظ سے مضبوط ایٹمی پاکستان کسی بھی صورت میں معاشی بلندیوں کو چھوتا ہوا قبول نہیں کیونکہ اگر پاکستان معاشی لحاظ سے بھی مضبوط ہوگیا تو بھارت کا” اکھنڈبھارت ” کاخواب ادھورارہ جائے گااور امریکہ بھی دنیاکی واحدسپر پاور نہیں بن سکے گاکیونکہ چین سینہ تان کراس کے سامنے کھڑاہو جائے گا۔
پاک چائنا اکنامک کاریڈور ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستانی معیشت کے لیے کلیدکی حیثیت رکھتاہے۔ اس منصوبے کی تکمیل پر پاکستان کا 2025ء تک پاکستان کا دنیا کی اٹھارہویں بڑی معیشت کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ بھارت توخیر پاکستان کاازلی ابدی دشمن ہے ہی اِس لیے اُس سے تو یہی توقع کی جا سکتی تھی لیکن اپنے بھی خم ٹھونک کرمیدان میںآگئے۔ پہلے یہ کہاگیا کہ اِس منصوبے کاحشر بھی کالاباغ ڈیم جیساکر دیںگے پھرمنصوبے کے روٹس پراعتراضات سامنے آگئے اور کہا گیاکہ مغربی روٹ سب سے پہلے مکمل ہونا چاہیے۔ حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلاکر مشرقی ،وسطی اور مغربی روٹس پر تمام جزئیات کے ساتھ بریفنگ دی اور اعتراضات پرسیر حاصل بحث کے بعد اِس منصوبے پر اتفاق ہوا ۔مولانافضل الرحمٰن نے دعائے خیرکی اور قوم نے سُکھ کاسانس لیاکہ پاکستان کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھنے والے اِس منصوبے پراتفاق رائے ہوگیا۔
30 دسمبر کو ژوب میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے مغربی روٹ کاسنگِ بنیاد رکھنے کے بعد وزیرِاعظم صاحب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ اس منصوبے کی تکمیل سے بیروزگاری، غربت اور پسماندگی کاخاتمہ ہو گا اور نہ صرف پاکستان میں خوشحالی آئے گی بلکہ پورے خطے کو بھی فائدہ ہوگا۔ 2428 کلومیٹر شاہراتی نیٹ ورک کی تکمیل سے دیگر صوبے بلوچستان سے منسلک ہوجائیں گے، بلوچستان میںخوشحالی کی صبح طلوع ہوگی اور پاکستان کی خوشحالی کاخواب بلوچستان سے پوراہوگا ۔سنگِ بنیاد کی تقریب کے موقعے پرجے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمٰن اے این پی کے میاں افتخارحسین ،قاف لیگ کے سید مشاہد حسین ،نیشنل پارٹی کے میرحاصل بزنجواور پختونخوا عوامی پارٹی کے محمودخاں اچکزئی بھی موجود تھے ۔ مولانافضل الرحمٰن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری کی تعمیرکے ذریعے چین نے دوستی کا ثبوت دیا۔
میاں افتخارحسین نے کہاکہ خطے میںدہشت گردی وبدامنی کی بنیادی وجہ اقتصادی پسماندگی ہے ۔اِس منصوبے سے ہم آنے والی نسلوںکو پرامن اورپرسکون مستقبل دے سکیںگے۔ گوادر کاشغر اقتصادی راہداری منصوبے سے پورے خطے کی تقدیربدل جائے گی ۔یہ منصوبہ چھیاسی ارب ڈالرکا ہے جوپہلے کبھی نہیں ہوا ۔محموداچکزئی نے کہا کہ اِس منصوبے سے نفرتوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ سید مشاہد حسین کا کہنا تھاکہ آج کا دن تاریخی اہمیت کاحامل ہے ۔اقتصادی راہداری کی افتتاہی تقریب کے موقع پربیشتر قومی قیادت موجودہے ۔مغربی روٹ کو ترجیح اور کل جماعتی پارلیمنٹیرین کمیٹی بنانے کے وعدے وزیرِاعظم نے وفاکر دیئے۔
افہام وتفہیم کی یہ فضاء شائدمحترم عمران خاںکو پسندنہیں آئی ۔انہوں نے اقتصادی راہداری کے خلاف خیبرپختونخوا میںمتحدہ محاذ بناناشروع کردیااور واضح طورپر کہہ دیاکہ اگران کی سفارشات کو تسلیم نہ کیاگیا تووہ اِس منصوبے کوکے پی کے میںنہیں بننے دیںگے ۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلی نے بھی یہی ڈھنڈوراپیٹنا شروع کردیا ۔جب وزیرِاعلیٰ سے سوال کیاگیا کہ آخراُنہیں اِس منصوبے پر اعتراض کیا ہے تو انہوں نے فرمایاکہ انہیں مشرقی روٹ پر کوئی اعتراض نہیں، اگر اعتراض تو یہ کہ جوسہولیات مشرقی روٹ کوبہم پہنچائی جارہی ہیں ،وہی مغری روٹ کوبھی فراہم کی جائیں۔
حقیقت یہی کہ انہیں صرف مشرقی روٹ پرہی اعتراض ہے جو پنجاب سے ہوکر گزرتاہے ۔یہ منصوبہ تو ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور صرف سڑکوں کی تکمیل کا کام جاری ہے ۔پھر کیا پرویز خٹک صاحب کو الہام ہوگیا کہ جو سہولیات مشرقی روٹ کو بہم پہنچائی جائیں گی وہ مغربی روٹ کونہیں۔عمران خاں صاحب نے اِس منصوبے میں اپنے بدترین سیاسی حریف مولانافضل الرحمٰن کے پاس بھی وفد بھیج کر انہیں اپناہم خیال بنانے کی کوشش کی۔ مولانافضل الرحمن جودو دفعہ اس منصوبے کی دعائے خیر میں شامل ہوچکے ،انہوں نے بھی فرمادیا کہ اِس منصوبے کے حوالے سے تحفظات دور کیے جائیں ۔راہداری کے روٹ میں تبدیلی سے سیاسی جماعتوں میں تشویش پائی جاتی ہے اِس لیے اقتصادی راہداری کے متعلق شکوک وشبہات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ژوب میں سنگ بنیاد کے موقعے پر مولانافضل الرحمن بھی موجود تھے۔
انہوں نے صرف یہ مطالبہ کیاتھا کہ ڈیرہ اسماعیل کی سڑک کوچار رویہ کی بجائے چھ رویہ کر دیا جائے جس پروزیرِاعظم صاحب نے انہیں یقین دلایاتھا کہ چار رویہ سڑک کی تکمیل کے بعد اسے چھ رویہ بھی کر دیا جائے گا۔ انہوں نے تو مولاناصاحب کی تسلی کی خاطر یہاںتک کہہ دیاتھا کہ ہو سکتا ہے کہ چاررویہ سڑک کی تکمیل کے دوران ہی اسے چھ رویہ کرنے کامنصوبہ سامنے آجائے۔مولانا صاحب تو خیر کوئی بھی ایساموقع ہاتھ سے جانے ہی نہیںدیتے جس میںوہ دوسرے کوبلیک میل کر کے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کر سکیں لیکن حیرت ہے کہ تحریکِ انصاف نے بھی مولاناصاحب سے ہاتھ ملالیا جن کے خلاف اس کے سربراہ کی غیرپارلیمانی زبان تاریخ کاحصہ ہے۔
تحریر: پروفیسر مظہر