تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں جب ہم ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو مکہ سے لے کر اپنی وادی میں پہنچتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم جانِ دو جہاں کے آنے سے ہر گھر سے عنبر کستوری کی مہک آنے لگتی ہے ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے چہرہ پر انوار کو جو بھی دیکھتا وہ آپ وادی کا دیوانہ ہو جاتا جیسے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی برکات کا مشاہدہ کیا اُن کی دیوانگی اور آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم سے چاہت بڑھتی گئی ۔ جیسے جیسے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے جسم اقدس کی برکات کا احساس ہو تا گیا لوگ ہر بیماری میں دیوانہ وار آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے پاس آتے۔
جب بھی کسی کو کو ئی جسمانی تکلیف ہو تی وہ ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے پاس آتا آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے ننھے ہا تھ مبارک کو اپنی تکلیف والی جگہ پر رکھتا باذن اللہ تعالی فوری طور پر صحت یاب ہو جاتا، انسان تو انسان اگر کو ئی جانور اونٹ یا بکری بھی بیمار ہو جاتی تو اس پر شافع ِ دو جہاں صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کا دستِ اقدس پھیرتے تو وہ فوری تندرست ہو جا تی ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے آنے سے پہلے وادی ہوا زن قحط سالی کا شکار تھی شدید قحط نے وادی کو بنجر بنا دیا تھا۔
زمینیں اور کھیت ہو لناک منظر پیش کر رہے تھے طویل قحط اور خشک سالی کی وجہ سے جانوروں کے تھن تک سوکھ گئے تھے پانی اور چارے کی کمی کی وجہ سے وہ لاغر اور بہت کمزور ہو گئے تھے لیکن جیسے ہی راحت ِ جاں ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے قدم مبارک اِس بنجر زمین پر پڑتے تو زمینیں سر سبز و شاداب ہو گئیں جانور بکریاں اور اونٹنیاں شام کو جب گھر لوٹتیں تو اُن کے پیٹ چارے سے اور تھن دودھ سے بھرے ہو تے ۔حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں ایک رات آخری پہر جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک نور نے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور ایک سبز پوش شخص آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے سرہانے کھڑا ہے میں نے آرام سے اپنے خاوند کو جگایا تو اُس نے مجھے خاموش رہنے کا اشار ہ کیا جب یہ کیفیت جاتی رہی تو خاوند بولا اے حلیمہ اِس کا ذکر کسی سے نہ کرنا مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ وہ ذاتِ گرامی ہے جس کی پیدائش پر یہودی پریشان ہیں اور اُن کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں حضرت حلیمہ سعدیہ بیان فرماتی ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو بنی سعد میں آئے چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک دن آبادی سے چند یہودیوں کا گزر ہوا تو میں نے ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی برکات سے انہیں آگاہ کیا تو ایک یہودی بولا اِس بچے کو قتل کر ڈالو تو دوسرا بولا کیا اِس بچے کا باپ زندہ ہے تو میں نے ڈر کر اپنے شوہر کی طرف اشارہ کیا کہ یہ اِس بچے کے باپ ہیں اور میں اِس کی ماں ہوں تو یہودیوں نے کہا اگر یہ یتیم ہوتا تو ہمارے ہا تھوں سے بچ نہیں سکتا تھا کیونکہ ہماری کتابوں میں نبوت کی نشانیوں میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانا بھی ہے ۔ حضرت حلیمہ آپ ۖ کی برکات کے حوالے سے فرماتی ہیں جب ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم میرے گھر میں رونق افروز ہو ئے تھے مجھے راتوں کو چراغ جلانے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی کیونکہ ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے نور سے سارا گھر روشن رہتا تھا۔ جب تک آ پ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم ہمارے گھر پر رہے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کا چہرہ مبارک کے نور سے میرا گھرہمیشہ روشن و درخشاں رہتا تھا جب مجھے اند ر جانے کی ضرورت ہو تی تو آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے نور سے اندھیری کو ٹھری روشن ہو جاتی اور جو چیز مجھے چاہیے ہو تی میں اُس کو لے لیتی۔
حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر والے ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم سے بہت پیار کر تے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم پر اپنی جان چھڑکتے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی آمد کی برکات سے حلیمہ سعدیہ کے گھر کے حالات پھر گئے تھے ہر وقت خوشحالی فیوض و بر کات کی با رش ہو تی رہی اہل خانہ اپنی خوش بختی پر نازاں ہو تے کہ خدا نے ان کے گھر میں کتنی بڑی نعمت بھیجتی ہے ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی آمد سے حلیمہ سعدیہ کا مقدر چمک اٹھا تھا غربت بیماری کی جگہ خو شحالی اور صحت نے لے لی آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے آنے سے ہر طرف خو شیاں ہی خو شیاں نظر آتی تھیں اہل خانہ اللہ کی اس غیر معمولی نعمت پر بہت شکر گزار تھے۔ ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم اپنے رضائی بہن بھائیوں سے کھیلتے زیادہ تر حضرت شیما کے ساتھ کھیلتے اور حضرت حارث آپ کو اپنے کندھوں پر اٹھا تے ، حضرت حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں ننھے حضور ۖ کی نشونما بہت تیزی سے ہو ئی تھی کہ دوسے لڑکے اتنی تیزی سے نہیں بڑھتے تھے۔
آپ فرماتی جب نو ماہ کے ہو ئے تو فصیح گفتگو فرمائی اور جب دس ماہ کے ہو ئے تو بچوں کے ساتھ تیر اندازی بھی فرمائی ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی بہت شان اور طہارت تھی کہ آپ ۖ نے کبھی کپڑوں میں بول و براز نہیں کیا بلکہ دونوں وقت مقرر تھے کہ اس وقت پروش کر نے والا آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو اٹھا کر پیشاب کروا دیتا اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کا ستر ننگا نہ ہو تا اور اگر کپڑا اٹھ جاتا تو فرشتے فوری طور پر ستر کو چھپا دیتے ۔ اور جب ننھے سردار صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی عمر مبارک تین برس ہو ئی تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے اپنی ماں سے فرمایا ۔ اماں جان میرے بہن بھائی کہاں جاتے ہیں ؟ تو رضائی ماں نے کہا میرے دل کے ٹکڑے میری جان آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم پر فدا آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے بہن بھائی بکریاں چرانے جاتے ہیں اور رات کو واپس آجاتے ہیں تو ننھے سردار صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے فرمایا میں بھی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جایا کروں گا ماں نے بہت آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو بہت پیار سے سمجھایا اور روکا بھی لیکن خود دار ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے جانے کا اصرار کیا تو آخر ماں نے جانے کی اجازت دے دی۔
تو اب ننھے سردار صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے اپنے رضائی بہن بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل جانا شروع کر دیا ۔یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی برکات نظر آنا شروع ہو گئیں جب آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم اپنے بہن بھائیوں کا ساتھ بکریاں چرانے کے لیے جنگل جانے لگے اُس دن سے دن بدن بکریوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو نے لگا دو دھ دینے والی بکریوں نے پہلے سے زیادہ دودھ دینا شروع کر دیا بکرے تیزی سے صحت یا ب اور بڑے ہو نے لگے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے مبارک قدم جدھر اُٹھتے بنجر صحرا تیزی سے سر سبز چراگاہوں میں ڈھلنے لگے جہاں آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے قدم مبارک پڑتے ہر یالی ہی ہر یالی نظر آتی یہ تمام برکات قبیلہ بنو سعد کی خو شیوں کا سبب بننے لگیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے بچپن کی ایک اور بھی بہت نمایاں خو بی تھی۔
جنہوںنے آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کا بچپن دیکھاوہ اِس بات کا اقرار کر تے ہیں کہ بچپن میں بھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے جھوٹ نہیں بولا کسی کے ساتھ غلط بات یا مذاق نہیں کیا صابر اتنے کہ کبھی کسی سے مانگ کر نہ کھایا آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو بچپن میں بھی جو کھانے کو دیا جا تا آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم آرام اور خوشی سے کھا لیتے اور کبھی کسی چیز میں نقص نہ نکالتے۔ حضر ت ام ایمن فرماتی ہیںمیں نے دیکھا کہ رسول ِ دو جہاں صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے کبھی بھو ک اور پیاس کی پرواہ کی ہو۔ آپ ۖ صبح صبح آبِ زم زم پی لیتے ہم نا شتہ دیتے تو فرماتے میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔
اِسی طرح جب ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم تین سال کے ہو ئے تو ایک دن اماں حلیمہ سعدیہ ننھے سردار کو ایک کا ہن کے پاس لے گئیں کا ہن کی نظر جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے چہرہ پر انوار پر پڑی تو اُس نے فوری چھلانگ لگائی اور ننھے سردار صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو اٹھا لیا اور کہنے لگا لوگو ں سنو ادھر آئو اِس بچے کو قتل کردو اور مجھے بھی اس کے ساتھ قتل کر دو اگر یہ بچہ جوان ہو گیا تو تمھیں تمھارے دین سے ہٹا دے گا اور ایک خدا کی واحدانیت کی طرف بلائے گا اماں حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں جب میں نے اس ظالم کا ہن کا شور سنا تو فوری طور ہر اُس کے ہاتھوں سے ننھے حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو چھین لیا سینے سے لگا کر فوری اپنے گھر کی طرف دوڑی لیکن دوڑتے دوڑتے یہ کہا کہ تم تو دیوانے پاگل ہو گئے ہو، کوئی اگر تم کو قتل کر دے اگر مجھے پتہ ہو تا تم یہ کہو گے تو کبھی یہاں نہ آتی ہم تو محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کو زندہ دیکھنے چاہتے ہیں اور وہ زندہ رہیں گے۔
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956