تحریر: حفیظ خٹک
پاکستان میں معاشی حب کی حیثیت رکھنے والے شہر قائد میں پرندوں کا کاروبار موجودہ دور حکومت میں اختتام کی جانب بڑھ رہاہے۔ شہری، صوبائی اور وفاقی حکومت کواس کاروبار کومزید نقصان اور خاتمے سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صوبہ سند ھ میں سابقہ دور حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی ، سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر نگرانی مرکزی حکومت اسی پیپلز پارٹی کی رہی ، موجودہ مرکزی حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ زردار ی کے دور حکومت میں شہر قائد میں پرندوں کا کاروبار عروج پہ تھا جبکہ موجودہ حکومت میں کہ جس کا سربراہ خود بھی ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں اس کے باوجود پرندوں کے کاروبار پرعدم توجہی کے سبب آج یہ کاروبا ر اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سابقہ دور حکومت میں پرندوں خصوصا طوطوں کی جوڑیاں ملک سے باہر برآمد کی جاتی تھیں، اس وقت ان کی قمتیں موجودہ قیمتوں سے کئی گنا زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ پرندوں کا یہ کاروبار کرنے والے ہزاروں شہری حکومتی سربراہ میاں نواز شریف کی مخالفت کرتے ہوئے سابقہ صدر زرداری کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ وہ برملا ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم کاروباری ہونے کے باوجود اس کاروبار کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ تفصیلی سروے کے نتیجے میں یہ اپیل آئی کہ پرندوں کے کاروبار کو باقاعدہ حکومتی محکمہ قرار دے کر اس کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ یہ کاروبار کرنے والوں کے غربت کے یہ شب و روز ختم ہوں اور اس کے ساتھ ہی بیرونی ممالک کو طوطے اور دیگر پرندے مہیا کرنے سے قومی معیشت کو مزید مستحکم بنایا جاسکے۔ طوطوں سمیت دیگر پرندوں کے اس کاروبار کے تازہ ترین صورتحال کیلئے محتلف کاروباری افراد سے ملاقاتوں اور جائے کاروبار کے معائنوں سے دلچسپ اور معلومات افزا صورتحال سامنے آئی ۔
شہر قائد کے علاقے لیاقت آباد ، جسے لالوکھیت دس نمبر سے پکارہ جاتا ہے اس کے دورے کے دوران محمد فیاض نے گفتگو کے دوران بتایا کہ پرندوں کے اس کاروبار میں طوطوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ طوطوں کی محتلف اقسام کا شہر قائد میں کاروبار ہوتا ہے ۔ زیادہ تر فشر، لیٹ، کوکٹل ، بجری اور جاوا سمیت 15دیگر اقسام کے طوطوں کا کاروبار نہ صرف انہوں نے خود کیا ہے بلکہ لالوکھیت اور صدر میں بھی اس کا کاروبار عام رہا۔ ان کا کہنا تھا ان اقسام کوبڑے تاجر چھوٹوں سے خرید کر ملک سے برآمد کردیا کرتے تھے۔ طوطوں ہی کا کاروبار کرنے والے ایک عبداللہ نے بتایا کہ طوطوں کی سب سے زیادہ افزائش پاکستان میں شہر قائد کے اندر ہوتی ہے۔ ان کیلئے گھروں میں چھوٹے اور بڑے پیمانے پر پنجرے تیار کئے جاتے ہیں اس کے ساتھ بالکل الگ فارم بھی بناکر ان میں ان کی افزائش کی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی اس بات کو دہرایا کہ زرداری صاحب کے دور میں اس کاروبار میں برکت تھی یہ عروج پر تھا بیرون ملک سمیت شہر میں ہی اس کے خریدار بہت تھے ۔ اس وقت ان قیمتیں بھی اونچی سطح پر تھیں۔ تاہم جب سے نوازشریف آئے ہیں ہمارا کاروبار تباہ ہوکر رہ گیا ہے اور اب بھی نقصان ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔
شہر قائد سے یہ طوطے آسٹریلیا اور سائوتھ افریقہ بڑی مقدار میں برآمد کئے جاتے تھے تاہم اب برآمدات نہ ہونے کی حد تک ہیں۔اس کاروبار کے اختتام کی جانب بڑھنے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔کاروبار کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے نوروز صاحب کا کہنا تھا کہ شہر قائد کی مجموعی آباد ی کا 10فیصد اس کاروبار سے مکمل اور نامکمل انداز میں وابستہ ہواکرتا تھا ، پانچ فیصد سے زائد کا پرندوں کا کاروبار پیشہ تھا جبکہ باقی ماندہ شوقیہ اس کاروبار کو اختیار کئے ہوئے تھے۔ سیکیورٹی و دیگر انتظامات پر ان کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس و رینجرز کی جانب سے انہیں کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تاہم ایک سیاسی تنظیم کے افراد لالوکھیت کے بازار سے ہفتے وار ان کے اسٹال کے حساب سے کوئی سہولت فراہم کئے بغیر فنڈلیتے ہیں ۔ طوطوں سمیت دیگر پرندوں کا سب سے مستقل اور اصل بازار صدر میں ہوتا ہے ، لالوکھیت وشہر کی دیگر مقامات پر بازار ہفتہ وار لگتے ہیں۔ لالوکھیت کے بازار کی اہمیت اس کی مرکزیت کے سبب زیادہ ہوتی ہے صبح 8بجے سے لگنے والابازار رات 8بجے تک لگے رہنے کے بعد ختم ہوتا ہے۔اس بازار میں دیسی ساختہ مرغی، چڑیا، کبوتر اور طوطے خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ ان کی مختلف اقسام ہوتی ہیں اس کے ساتھ ان کے کھانے کی اشیاء بھی دستیاب ہوتی ہیں۔
پرندوں کی قیمت کے متعلق محمد ناصر نے کہا کہ ان پرندوں میں سب سے زیادہ قیمت طوطوں کی ہوتی ہے۔بعض طوطوں کی جوڑی ایک لاکھ روپے میںبھی فروخت ہوتی ہے۔زردار ی کے دور میں فشر طوطے کی قیمت 6ہزار روپے اور اب 1200روپے ہے۔بلیک چیک چڑیا پہلے 4500اوراب 50روپے کا بکتا ہے۔تمام اقسام کے جاوا پہلے دور میں 4500جبکہ اب 700روپے تک ان کی قیمت گر گئی ہیں۔قیمتوں کی یہی صورتحال دیگر کی بھی ہے۔اس کاروبار میں اجارہ داری کے سوال پر ان کا کہاتھا کہ بڑے کاروباری خضرات کا اس کاروبار پر مکمل کنٹرول ہے بسا اوقات ان کی جانب سے جب یہ اشارہ ملتا تھاکہ باہر زیادہ پرندے بھیجے جانے ہیں تب پرندوں کی قیمت بڑھ جاتی تھیں۔ہم چونکہ طویل عرصے سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں لہذا یہ بات کہنے میں کوئی ججک محسوس نہیں کرتے کہ یہ بڑے کاروباری ایک مخصوص منصوبے کے تحت اس کاروبار میں شریک ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے انہی منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔ کاروبار کی موجودہ ابتر صورتحال سے ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے بلکہ وہ خضرات تو اس وقت بھی سستے داموں دیگر لوگوں سے پرندے خرید رہے ہیں۔زیادہ نقصان تو انہیں پہنچا ہے جنہوں نے اس کاروبار کو اپنے محدود وسائل کے باوجود پیشے کی حیثیت سے شروع کیا اور اب وہ مخدوش صورتحال سے گذر رہے ہیں۔ ہزاروں افراد اس کاروبار کو چھوڑ کر محنت مزدوری کر کے اپنے گھروں کو چلا رہے ہیں۔ بیشتر اب بھی بے روزگار ہیں۔
پرندوں کی خوراک کے متعلق یہ بتا گیا کہ صدر سمیت شہر کے بیشتر جگہوں پر موجود دکانوں میں پرندوں کی خوراک دستیاب ہوتی ہے۔ صدر، لولوکھیت، کورنگی ، ملیر لیاقت مارکیٹ اور کھوکھراپار میں پرندوں کے خوراک کی بڑی دکانیں موجود ہیں جہاں ان پرندوں کے بازار بھی لگتے ہیں ۔ پرندوں کے کاروبار سے انسانوں کو پہنچے والے نقصانات پر الہی بحش نے کہا کہ انسانوں سے زیادہ بیمار تو خود پرندے ہوجاتے ہیں۔موسم کی تبدیلی یا ہوا کی تیزی سے ان پرندوں کو زکام اور موشن ہوجاتے ہیں ، ان کا علاج کرنے والے ان کے رکھوالے ہی ہوتے ہیں تاہم زیادہ بیماری کی صورت میں جانوروں کے ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پرندوں کی موت کی صورت میں انہیں کچراکنڈیوں میں ہی پھینک دیا جاتا ہے جبکہ بعض کاروباری خضرات ان پرندوں کو دفن کرنے کی صورت زمین کے نیچے دبا دیتے ہیں۔ پرندوں سے انسانوں کو اگر کوئی بیماری ہوتی ہے تو وہ سانس اور الرجی کی بیماری ہے ایسی صورت میں اس فرد کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے ۔
اگرکبوتروں ، چڑیائوں ، مرغیوں اور خصوصا طوطوں کے اس کاروبار کو حکومت اہمیت دے اور اس کاروبار کا باقاعدہ ایک محکمہ بناکر اس میں کاروباری خضرات کو سہولتیں فراہم کرے ، ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے وسائل دے تو ان اقدامات اور اس طرح کے عملی کاموں سے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بے روز گاری کا خاتمہ ہونے میں بھی مدد ملے گی اور ملک کی معیشت بھی مستحکم ہوگی۔ پرندوں کا کاروبار کرنے والے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں نے مشترکہ طور پر وزیراعظم میاں نوازشریف سے یہ اپیل کہ میاں صاحب سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ کو حکم دیں کہ وہ شہر قائد میں پرندوں کے کاروبار کرنے والوں کے مسائل حل کرتے ہوئے انہیں سہولیات فراہم کریں اور خود بھی مرکزی سطح پر اس کاروبار کوبڑھانے اور مستحکم کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔
تحریر: حفیظ خٹک
(hafikht@gmail.com)