تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
ملکی میں بڑھتی دہشتگردی اور بدامنی کے باعث ہر زور کوئی نہ کوئی سانحہ رونم اہو جاتا ہے لیکن رونماہونے والا سانحہ کئی سوال پیدا کر جاتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن سمیت تمام سیاسی، مذہبی، سماجی و دیگر جماعتوں دہشتگردی کی مذمت کرتی ہیں اور ملک میں امن کیلئے کوشاں ہیں۔ اور حکومت نے ملک امن وامان کیلئے اربوں روپے خرچ کیئے جس میں تھانہ کلچر کو بدلنے کیلئے بہت اہم اقدامات کیے تاکہ عوام کو بر وقت اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
تاریخی حوالے سے پاکستان پرامن اور دنیامیں اسلامی ملک ہونے کی بنا پر قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔قائد عوام ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے آئین کے بانی و خالق تھے۔ آئین پاکستان کے کل 280 آرٹیکلز ہیں۔ جن میں سے پہلے 40 آرٹیکلز عوام کے حقوق اور بقیہ 240 آرٹیکلز طرزِ حکمرانی پر بحث کرتے ہیں۔
”ہم حالت جنگ میں ہیں” اپنے سیاسی رہنمائوں سے یہ فقرہ ہم تقریباً ہر روز سنتے ہیں لیکن عوامی سطح پر یہ تاثر عام ہے کہ یہ جنگ صرف حکومتی فائلوں تک محددود ہے۔ اس سلسلے میں لمبی لمبی میٹنگز منعقد ہوتی ہیں۔ پاکستانی قوم کیلئے توپھر دہشتگردی مسئلہ کیوں بنی ہوئی ہے۔یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میںماہرین کہتے ہیں کہ دہشت گردی دو الفاظوں کا مرکب ہے” دہشت ”سے مراد خوف وحراس ، افراتفری اور لفظ” گردی ”گردش سے نکلا ہے گردش گومنا پھرنا یا بار بار چکر لگانا کو کہتے ہیں ،مطلب کہ کسی خطے و معاشرے میںبد امنی خوف حراس اور افراتفری پھیلانا ہے۔
شاہد دیناکاکوئی ایساحصہ بھی ہو جہاں موت نہ ہو۔جہاں جانی ،معاشرتی اخلاقی اور مالی دہشت گردی نہ ہو۔ ہر جگہ کم یا زیادہ دہشتگردی ضرورہے۔ جانی دہشت گردی سے مراد ہے کہ ایسی دہشت گردی جہاںانسانی زندگی کو نقصان پہنچا کر خطے کہ دہشت افرا تفری اور حالت جنگ جان بوجھ کر تبدیل کیا جائے۔ دہشتگردی کے خاتمے میں پولیس کا اہم کردار ہوتا ہے۔
کیونکہ ابتدائی رپورٹ پولیس کی مددسے درج کی جاتی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 2013سے پنجاب میں پولیس آرڈر 2002ء کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف نے کئی رپورٹس طلب کیں جن پنجاب پولیس کے 35ہزار سے زائد کرپٹ ملازمین کی فہرست طلب کی جس میںان ملازمین کے خلاف رشوت لینے، قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے اختیارات کے غلط استعمال کر کے نہ خود فائدہ اٹھانے بلکہ اپنے خاص فریق سے ساز باز کر کے لاکھوں روپے وصول کرنے زیر سماعت مقدمات میں مخالفین کو ملوث کرنے اور سرکاری مال خرد برد کرنے جیسے الزامات کے تحت پانچ سالوں کے دوران پنجاب پولیس کے 6ہزار پولیس افسران کے خلاف مقدمات درج ہیں، سینکڑوں ملازمین پولیس افسران مقدمات کے باوجود اشتہاری ہیں جن کو جان بوجھ کر گرفتار نہیں کیا گیا ۔ تاہم الزامات ثابت ہونے کے باوجود اپنی پرکشش سیٹوں پر براجمان رہے۔
ایک پھر چھٹی نمبر SOEll/S&GADـ14ـ250کے مطابق حکومت پنجاب نے گزشتہ چند سالوں کے دوران پنجاب پولیس کے 480افسران و اہلکاروں کے خلاف رشوت اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر اینٹی کرپشن میں درج ہونے والے مقدمات کی تفتیش اور کارکردگی رپورٹ طلب کرلی ہے، ان مقدمات میں سے 180مقدمات لاہور پولیس کے سابق و حاضر سروس افسران واہلکاروں کے خلاف اینٹی کرپشن میں درج کئے گئے ہیں۔
دوسری جانب افغان مہاجرین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔لاکھوں افغانی اس وقت پاکستان میں مہمان کی حیثیت سے زندگی بسرکررہے ہیں۔مشکلات میں گھرے مادرِ وطن میں امن تو کہیں پر دکھی آئی نہیں آتا، اسی لیے پاکستان میں رجسٹرڈ لاکھوں افغان مہاجرین کو بھی وطن لوٹنے کی کوئی جلدی نہیں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد سن اْنیّس سو اْناسی کے دوران سوویت جارحیت کے بعد شروع ہوئی تھی، پھر اس کے بعد وہاں مسلسل عدم استحکام نے ان کی واپسی کو مشکل تر بنا دیا۔
اگرچہ عالمی طاقتوں بالخصوص وہ جو دہائیوں سے افغانستان کے معاملے میں شامل رہی ہیں، انہیں چاہیے کہ بے گھر افغان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے میں پاکستان کی مدد اور حمایت کریں، ساتھ ہی افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ داخلی سطح پر امن و امان اور استحکام کو یقینی بنائے تاکہ یہ مہاجرین گھروں کو لوٹنے پر آمادہ ہوسکیں۔
ماہرین ،مبصرین کاکہنا ہے کی ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں امن قائم کرنے کیلئے حکومت کو اجلاسوں کی بجائے کرپٹ پولیس ملازمین کیخلاف حتمی کارروائی کرناہوگی اور افغان مہمانوں کو واپس اپنے وطن لوٹنے کا حکم دینے ہوگا ورنہ ملک میں دہشتگردی کیخلاف اقدامات صرف کاغذی کارروائی ہی ثابت ہوگی۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ