تحریر : شہزاد حسین بھٹی
سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایسے موقعہ پر کشیدیگی میں اضافہ ہوا ہے جب داعش کا خطرہ مشرقی وسطی سمیت دنیا بھر میں محسوس کیا جارہا ہے۔ شام کے بحران کے نتیجے میںدولت اسلامیہ کے ظہور نے کراہ ارض پر ان امن پسند حلقوں کی تشویش میں خاطر خواہ اضافہ کردیا ہے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف سب ہی ممالک کو پورے اخلاص سے متفق ومتحد ہونا ہوگا۔اس میں دو آراء نہیں کہ سعودی عرب اور ایران کشیدگی کی پوری تاریخ رکھتے ہیں لہذا معاملات بہتر بنانے کی ہر کوشش کو اسی سیاق وسباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں میں صورت حال بہتر بنانے کے لیے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے بیانات خوش آئند ہے مگر زبانی جمع خرچ کی بجائے عالمی برداری کو عملی اقدمات اٹھانے ہونگے۔ شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے کے بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات تادم تحریر مسلسل کشیدہ ہورہے ہیں اور معاملہ کا تشیویشناک پہلو یہ ہے کہ او آئی سی سمیت تاحال کسی بھی مسلم ممالک نے یہ کوشش نہیں کی کہ دو اسلامی ملکوں میں دوطرفہ تعلقات بہتر بنا ئے جائیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں تازہ کشیدگی سعودی حکام کی جانب سے ممتاز شیعہ عالم شیخ نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے پر پیدا ہوئی۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر دونوں ملک یہ تہیہ کرلیں کہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی تو اس بھی تناو کم ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ترکی کی جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران تحمل سے کام لیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب کا ایران سے سفارتی تعلقات ختم کر دینا یقینا معمولی واقعہ نہیں۔
درست ہے کہ شیخ النمر کی سزائے موت کے خلاف ایران میں شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر دھاوا بول کر اسے آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ایرانی صدر کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کے باوجود سعودی حکام نے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ادھر سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا تھا کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ تمام فضائی سفری روابط اور تجارتی تعلقات بھی ختم کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی شہریوں کے ایران جانے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ مکہ اور مدینہ آنے والے ایرانی زائرین کو سعودی عرب آنے کی اجازت ہوگی۔ درپیش صورت حال ایران کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب تہران میں اپنے کے سفارتخانے پر حملے کو جواز بنا کر خطے میں کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔ ترکی کی حکومت نے سعودی عرب اور ایران سے مطالبہ کیا ہے وہ سفارتی کیشدگی میں کمی لے کریں کیونکہ اس تنازعے سے علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔پاکستان کی حد تک وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پر تشویش ہے اور اس صورتحال میں مثبت اور متوازن کردار ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں.تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پاکستان قومی مفاد اور سیکیورٹی کومدنظر رکھے گا
قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ پاکستان کی کوئی پالیسی نہیں ہے.سرتاج عزیز نے کہا کہ تہران میں تمام سفارتی مشن کا تحفظ چاہتے ہیں اور پاکستان او آئی سی کے رکن اور دوست ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے .مشیر خارجہ نے مزید خبردار کیا کہ موجودہ صورتحال پر مسلم امہ کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس سے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں.ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی وزیر خارجہ کے دورے کا منتظر ہے.دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سرتاج عزیز کا پالیسی بیان مسترد کردیا.خورشید شاہ نے کہا کہ سرتاج عزیز نے پاکستان کا بہت کمزور موقف پیش کیا.انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس تنازع پر تمام پارلیمانی سربراہان کو ان کیمرہ بریفنگ دی جائے.یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور سعودی عرب کئی بار یہ الزام لگا چکا ہے کہ ایران، عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیرنے جمعرات کی شام پاکستان پہنچنے کے بعد پاکستان کی برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، وزیر اعظم نواز شریف اور مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر نواز شریف نے موجودہ مشکل حالات میں اختلافات اور مسائل کا پرامن طریقے سے حل کیا جانا امتِ مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف تمام اتحادوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مشیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں سعودی عرب کی ایران سے حالیہ کشیدگی پر بات چیت ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی پر تشویش ہے۔دہشت گرد اور شدت پسند طاقتیں مسلم امہ کے درمیان کسی پھوٹ کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔موجودہ مشکل وقت میں مسلمانوں کے اتحاد کے لیے تمام اختلافات کو پرامن انداز سے حل کیا جانا چاہیے۔گذشتہ شب سعودی وزیر دفاع و نائب ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان السعود نے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں کیں جسکے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف نے انہیں یقین دلایا کہ مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان سعودی عر ب کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اور پاکستان مسلم ممالک کے درمیان مفاہمت کے ذریعے مسائل کے حل پر یقین رکھتا ہے۔
باعث اطمینان بات یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم بشمول سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ کو ثالثی کا کردار اداکرنا چاہیے تاکہ دونون ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرانے میں ہی مسلم امہ کی بھلائی ہے ۔ اغیار کا ایجنڈا یہی ہے کہ مسلم ممالک کو آپ میں فرقہ وارانہ معاملات میں الجھا کر کمزور کیا جائے ۔ ایک طرف پاکستان کے سعودی عرب سے گہرے اور دیرینہ تعلقات اور دوسری طرف ایران ہمارا برادر ملک اور ہمسایہ ہے اورمعروضی حالات مین ہمسائے کبھی تبدیل نہیںہوتے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ او آئی سی اس معاملے میں مکمل طور پر خاموش ہے اسے فوری طور پر اس کشیدگی کو کم کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وگرنہ ہمیں مشرق وسطی کے دیگر ممالک کی طرح ایک دو اور اسلامی ممالک کی بَلی دینی پڑجائے گی۔ اگرچہ پاکستان نے دونوں ممالک کے تعلقا ت پر توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں اوردونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو اور اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکل آئے۔اس صورتحال میں پاکستان نے دونوں ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات پرامن انداز میں حل کریں۔اور آنے والے دنوں میں مسلم ممالک بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی