اسلام آباد…….مشیر خارجہ سرتاج کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ برادرانہ ہمسائیگی کے تعلقات کو نہایت اہمیت دیتا ہےاور افغانستان میں پائیدار و استحکام کی کوششیں جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہے۔
افغان مفاہمتی عمل پر پاکستان، افغانستان، چین اور امریکا پر مشتمل چار فریقی رابطہ گروپ کا پہلا اجلاس دفتر خارجہ اسلام آباد میں ہوا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کاکہناتھاکہ رابطہ گروپ کا اولین کام افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کیلئے ساز گار ماحول فراہم کرنا اور مجموعی طور پر افغان مفاہمتی عمل کی سمت واضع کرنا ہے۔افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے مواقع اور مشکلات کا حقیقت مندانہ جائزہ لیکر آگے بڑھنا ضروری ہے، ہم سب کو مشترکہ زمہ داری کے اصول کے تحت اس مقصد کے حصول کیلئے انفرادی کوششیں بھی کرنا ہوں گی۔ رابطہ گروپ کا طریقہ کار مقاصد اور گروپ کے مینڈیٹ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ مفاہمتی عمل کا بنیادی مقصد طالبان دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لانا اور انہیں ایسی ترغیبات دینا ہے جس سے وہ تشدد کاراستہ چھوڑیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ مذاکراتی عمل کی شروعات سے شرائط کو منسوب نہ کیا جائے، اس کے نتائج الٹ ہوں گے۔طالبان سےبراہ راست مذاکرات کیلئے مفاہمتی عمل کے اقدامات کو باقاعدہ سلسلے کی شکل دینا ہو گی۔تمام دھڑوں کو مذاکرات کی دعوت اور ان کے رد عمل سے قبل ناقابل مصالحت دھڑوں کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکی دینا ٹھیک نہیں ہو گا۔ ناقابل مصالحت اور قابل مصالحت دھڑوں میں فرق، ناقابل مصالحت دھڑوں کے خلاف کاروائی تب ہی ہو سکتی ہے جب انہیں مذاکرات کی طرف لانے کی تمام کوششیں دم توڑ جائیں۔سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ اعتماد سازی کے کچھ اقدامات طالبان کو مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کیلئے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ عملی اقدامات کے روڈ میپ کو حقیقت پر مبنی اور لچکدارہونا ہو گا۔ اس روڈ میپ کے اقدامات اور مراحل واضع ہونے چاہیں، اور اس کے غیرحقیقی اہداف اور ڈیڈ لائنز نہیں ہونی چاہیں۔