تحریر : مقصود انجم کمبوہ
پرائیویٹائزیشن کے بعد جرمن ریلوے نے یکم جنوری 1994ء سے نجی انتظامیہ کے تحت سرے سے کام کا آغاز کیا ۔ چند برسوں میں ادارے پر جو بھاری قرض چڑھ گیا تھا اس سے نجات پا کر ریلوے بہتر مستقبل کی راہ پر گامزن ہو گئی ہے۔ریلوے کے پاس 40000 کلومیٹر سے زائد بجلی سے چلنے والی ٹرینوں کا مکمل نظام موجود ہے اس کے علاوہ تقریباً 3500 بجلی سے چلنے والے انجن موجود ہیں جبکہ بھاپ سے چلنے والے انجنوں کی تعداد74 سے زائد ہے ۔ ریلوے کے پاس 2600 الیکٹرک ریل موٹر یونٹس ، 16500 مسافر ڈبے مال گاڑیوں کی دو لاکھ سے زائد ویگنیں ہیں۔ڈوئچے بان کے دیگر اثاثوں میں جو چالو حالت میں ہیں ان میں بحیرہ بالٹک میں چلنے والی سات مسافر اور سامان بردار کشتیاں ہیں ۔ جرمنی اور سویزر لینڈ کی سرحد پر جھیل کنٹانس میں کشتیوں اور 17 جہازوں کا بیڑہ شامل ہے 1994ئ میں 1.5 ملین مسافروں نے ریل کے ذریعے سفر کیا اور بعد ازاں ریل انجنوں ، ڈبوں اور دیگر سازوسامان کی خریداری پر دس بلین مارک خرچ کیے گئے۔
103سیریز انٹر سٹی انجنوں کی جگہ 101 سیریز کے بجلی سے چلنے والے انجن استعمال کئے گئے ۔اس کے علاوہ نصف ٹرینوں کی نئی انٹر سٹی ایکسپریس سروس کے ذریعے سفر کا دورانیہ کم کیا گیا اور سروس بہتر بنائی گئی ۔نصف ٹرین سے مراد وہ ریل گاڑیاں جو کسی مقررہ اسٹیشن پر تقسیم ہو کر الگ راستوں پر روانہ ہو جاتی ہیں۔برلن ہمبرف روٹ کے لیے مجموعی طور پر 165سٹی ٹرینوں کی تیاری کا آرڈر بھی دیا گیا۔ ساتھ ساتھ ریلوے اسٹیشنوں پر جدید سہولتیں مہیا کی گئیں عملہ زیادہ ہونے کی وجہ سے خسارہ بڑھ رہا تھا لہٰذا ریلوے کو ایک نفح بخش اور جدید اور موثر بنا کر کار کردگی میں اضافے کے لیے ملازمین کی تعداد میں کمی کی گئی جرمنی میں ٹرانسپورٹ کے نظام کو مستحکم و موثر بنانے کے لیے حکومت نجی انتظامیہ سے عملی تعاون کرتی ہے جس سے جرمن شہری استفادہ کرتے اور حکومتی کاوشوں کوستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں جرمن میں بھی جمہوری نظام چل رہا ہے جس سے عوام کو ہر نوع کی سفری سہولیات مل رہی ہیں ۔ ریل کا سفر کرنے والے مسافروں کو کریڈٹ کارڈ بھی فروخت کیے جاتے ہیں ۔ سفری سہولتیں اس قدرآرام دہ ہیں کہ پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ فوجی حکومت عوام کو الیکٹرک ٹرینوں کا نظام مہیا کرتی ہے اور جب کہ جمہوریت آتی ہے تو اس نظام کی بساط لپیٹ دیتی ہے ۔ جنرل ایوب خاں مرحوم کے دور اقتدار میں الیکٹرک ٹرینوں کا نظام متعارف کروایا گیا اور آصف علی زرداری کے دور حکومت میں اس نظام کو اکھاڑپھینک دیا گیا ۔ عوام سے یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ چہ جائیکہ اس نظام کو مزید مربوط و مستحکم بنایا جاتا اس کو زمین بوس کر دیا گیا ۔ اب ہم پاکستانیوں کو میٹرو بسوں اوراورنج ٹرینوں کا تحفہ دیا جا رہا ہے۔اللہ کرے یہ نظام چلتا رہے اور ترقی کرتا رہے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ ہم بھی بڑے ظالم ہیں جو اپنے حقوق کے لیے جنگ نہیں لڑ سکتے ہیں۔
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کو اس لئے بند کر دیا گیا کہ اس میں کرپشن کے عفریت نے پنجے گاڑھ لیے تھے ایک کنڈکٹر سے لے کر ورکس مینجر تک سب نے اپنا اپنا حصہ وصول کرنا شروع کر دیا تھا مجھے بھی ورکس مینجر کی پوسٹ کی آفر ملی تھی جو اس لیے ٹھکرا دی تھی کہ یہ کارپوریشن ٹوٹنے کے اشارے دے رہی تھی آخر ٹوٹ گئی ۔ پاکستانی شہری بھی نہیں چاہتے کہ ان کے اندر کوئی انقلابی تبدیلی آئے اور وہ اس سے مستفید ہوں ۔آج کل میٹر و بس سروس اور اورنج ٹرین سروس کی تعمیر کے لیے حکومتی کوششیں عروج پر ہیں تو مخالفین نے مختلف دلائل سن ان سروسز کو متنازع بنانے کی انتہا کر دی ہے ۔ میرے بھائیو دوستو! ان کو مکمل ہونے دو جو کچھ مل رہا ہے لے لو توایسے بھی حکمران گزرے ہیں جنہوں نے عوام کو کچھ نہیں دیا مگر اپنے اپنے پیٹ بھر کے چل دیئے ہیں اب احتساب ان کو چبھنے لگا ہے دوستوں ساتھیوں کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال ہونے لگا ہے۔
یہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے ۔ میگا پراجیکٹس تعمیر کروا رہی ہے یہ مت سمجھو کہ کرپشن کو قبول کر لیا جائے گا ۔ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے تعمیر کردہ پراجیکٹس کی بھی چھان بین ہو سکتی ہے اس لیے وہ کوشش تو کر رہے ہوں گے کہ کوئی کمزوری رہ نہ جائے ۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 150 ارب روپے سے دیہی سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ فائنل کیا ہے جس سے چھوٹے بڑے دیہاتوں کو مین منڈیوں سے ملایا جائے گا آپ شہری ہیں آپ کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ تعمیراتی منصوبوں کی از خود نگرانی کرے نہ کہ ٹھیکیداروں سے بھتہ وصول کر کے اپنے ہی منصوبوں کو پانی میں ملا دے۔ پاکستانی شہریوں کو میرا مشورہ ہے کہ ریلوے اور دیگر بڑے بڑے صنعتی اداروں کو نجی شعبے میں دینے کی مخالفت نہ کی جائے ورنہ ان اداروں کی مٹی بھی لوگ لے جائیں گے۔
سیاستدانوں نے ان بڑے بڑے اداروں میں وہ سیاسی کھلبلی مچائی ہے کہ ان کا اب اپنے پائوں پہ کھڑا رہنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ہر حکومت نے اپنے سیاسی ایجنٹوں اور محسنوں کو لوٹنے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے بلکہ اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سنجیدگی سے ان کی پرائیویٹ سیکٹر میں فروختگی کے عمل میں قطعی رکاوٹ نہ ڈالیں ورنہ پچھتائو گے اب جو سیاسی تنظیمیں انکی نجکاری کے سامنے آہنی دیوار بنی بیٹھی ہیں ان کے ماضی پر بھی ذرا غور کریں ۔ ان کے سیاسی ایجنٹوں نے ہر کارپوریشن اور صنعتی یونٹس میں وہ لوٹ مار مچائے رکھی کہ آخر وہ بند ہو کر رہ گئے اور ان اداروں کو سکریپ بنا کر رکھ دیا جو اب بک بھی نہیں رہے۔
تحریر : مقصود انجم کمبوہ