تحریر: محمد شاہد محمود
پاکستان کی اعلیٰ سیاسی وعسکری قیادت نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی خطرہ ہوا تو پاکستان انتہائی سخت جواب دیگا۔ سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان السعود نے وزیراعظم نوازشریف اورآرمی چیف جنرل راحیل شریف کیساتھ ملاقاتیں کیں۔ سعودی نائب ولی عہد مختصر دورے پر پاکستان پہنچے، تو نور خان ائر بیس پر وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اورمشیرخارجہ سرتاج عزیز نے انکا استقبال کیا، جبکہ اس موقع پر وزارت دفاع، وزارت خارجہ اور پاکستان میں سعودی سفارتخانے کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔
سعودی وزیر دفاع ائر پورٹ سے سیدھے جی ایچ کیو پہنچے ، جہاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور دوسرے اعلیٰ عسکری حکام نے انکااستقبال، جبکہ پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈآف آنرپیش کیا۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد سعودی وزیردفاع وطن واپس روانہ ہوگئے۔ وزیراعظم نوازشریف نے شہزادہ محمدبن سلمان کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کے عوام سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت اور خود مختاری کو درپیش کسی بھی خطرے کی صورت میں اپنے سعودی بھائیوں کیساتھ کھڑے ہونگے ، مسلم ممالک کے درمیان پْرامن مذاکرات اور مصالحت کے ذریعے اختلافات ختم کروانے کیلئے پاکستان ہمیشہ سے اپنی خدمات پیش کرتا آیا ہے۔
دہشت گردی و عسکریت پسندی کے خلاف ہم خیال مسلم ممالک کے اتحاد کے قیام کا خیرمقدم جبکہ انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام سعودی عوام اور خادم الحرمین الشریفین کا بہت احترام اور تکریم کرتے ہیں،دونوں ممالک کے عوام تاریخی، ثقافتی اور اسلامی بھائی چارے کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نے ایران سعودی تعلقات کے تناظر میں او آئی سی ممالک کے درمیان بھائی چارے کی پالیسی پر کاربند رہنے اور برادر اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات بات چیت اور مصالحت سے دور کرنے کیلئے پاکستان کی خدمات فراہم کرنے کی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اورایران میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے اسلامی ممالک کو کردار ادا کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں سفارتی وسائل استعمال کئے جائیں۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے خاص طور پر دفاع، سلامتی، دہشتگردی کیخلاف جنگ، سرمایہ کاری اور سعودی عرب کو پاکستانی افرادی قوت کی فراہمی کے شعبوں میں تعاون مزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا۔
سعودی نائب ولی عہد نے دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی افواج اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی بہادری سے کوششوں خصوصاً آپریشن ضرب عضب کو سراہا۔ اس موقع پر سعودی شہزادے کو دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی کوششوں سے متعلق بریفنگ دی گئی، جبکہ اتفاق پایا گیا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے مشترکہ دشمن کو شکست دینے کیلئے دونوں ملک ملکر جدوجہد کرینگے۔ سعودی وزیر دفاع نے جنرل ہیڈکوارٹرز میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔
اس دوران پاک فوج کے سربراہ نے کہاکہ سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کوکسی بھی خطرے کی صورت میں پاکستان کا جواب بہت سخت ہوگا۔ ملاقات میں علاقائی سلامتی اور دفاعی شعبے میں تعاون سے متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، جبکہ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سعودی عرب اورخلیج تعاون کونسل(جی سی سی) کے دیگر رکن ممالک سے قریبی و برادرانہ تعلقات ہیں جبکہ پاکستان ان ملکوں کی سیکیورٹی کوبہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
پاکستان کے سعودی عرب کیساتھ بہت ہی قابل اعتماد فوجی تعلقات ہیں جبکہ سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی کوکوئی بھی خطرہ ہوا تو پاکستان کاردعمل بہت سخت ہوگا۔ سعودی وزیر دفاع نے اس موقع پر کہا کہ سعودی عرب پاکستان اور اس کی مسلح افواج کو بہت اہمیت دیتا ہے ، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاک فورسزکی کامیابیوں اور علاقائی استحکام کیلئے انکی کوششوں کو سراہتا ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی طرف سے تمام ترمعاملات پرپاکستانی موقف کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی، جس میں دفاعی تعاون کے حوالے سے تمام دوطرفہ امور اوردہشت گردی کیخلاف سعودی قیادت میں بننے والے 34 ملکی اتحاد سے متعلق امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔
پاکستان نے 34 ملکی فوجی اتحاد کے 4شعبوں میں کردار ادا کرنے کی پیشکش کردی۔ ان شعبوں میں انٹیلی جنس شیئرنگ، دہشتگردی کیخلاف جنگ کے تجربات سے آگاہی، دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ضروری تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی شامل ہے۔ پاکستان کا سول اور ملٹری وفد جلد سعودی عرب کا دورہ کریگا، جس دوران دہشت گردی کیخلاف 34 ملکی اتحاد پر بات چیت ہو گی۔ رواں سال دونوں ملکوں کی مشترکہ مشقیں پاکستان میں ہونگی، جن میں سعودی افواج کے جوانوں کو تربیت دی جائیگی،امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود رواں ماہ ہی سعودی عرب کا دورہ کرینگے۔ سعودی عرب نے ایران کیساتھ مفاہمت کے حوالے سے پاکستان کو اپنی شرائط سے آگاہ کر دیا۔
سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کی اعلیٰ سیاسی وفوجی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران اپنی شرائط سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کیساتھ تعلقات کی بحالی سے قبل اعتماد کی بحالی ضروری ہے ، کیونکہ سعودی سفارت خانے پر حملہ کرکے ایران اپنا اعتماد کھو چکا ہے ، ایران کی جانب سے آئندہ شر انگیزی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے اور اس یقین دہانی تک تعلقات کی بحالی ممکن نہیں۔خلیج تعاون کونسل نے عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو روکنے کیلئے سعودی عرب کے اقدامات کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا 42 واں سالانہ اجلاس قاہرہ میں ہوا، جس میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی اور تہران میں سعودی سفارتخانے اور مشہد میں قونصل خانے پر حملوں کی صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ عرب لیگ کے رکن ممالک عرب ممالک کے اندرونی معاملات اور امور میں مداخلت کے خاتمے کیلئے سعودی عرب کے اقدامات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ایران کی سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ مداخلت سے علاقائی استحکام خطرے سے دوچار ہو گیا ہے ، مداخلت اور اشتعال انگیز پالیسی تمام خلیجی ممالک کے لیے یکساں باعث تشویش ہے ،اعلامیے میں بین الاقوامی برادری سے کہا گیا ہے کہ وہ سفارتی مشنز پر حملوں کو روکنے کیلئے ایران پر دباؤ بڑھائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما نہ ہو سکیں۔
دہشتگردی کے خلاف کئے گئے سعودی اقدامات اور سعودی عدالتی نظام کی سالمیت اور استحکام کی مکمل حمایت کی جائے گی۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ تعلقات کی بہتری کی گیند اب تہران کی کورٹ میں ہے ، ایران عالمی معاہدوں اور بین الاقوامی سفارتی اصولوں کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔
عرب ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو روکنے کیلئے سعودی عرب ایران کے خلاف مزید دفاعی اقدامات کرے گا۔ ایران کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنا پہلا قدم ہے ، ایران نے دہشت گردوں کی حمایت نہ چھوڑی تو اْسے اتحادی ملکوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیرخارجہ عادل الجبیر نے ایران پر زور دیا کہ وہ ہمسایوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے مطابق پیش آئے، ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے، اور دہشتگردی کی حمایت کی بجائے اسے رد کرنے کی پالیسی اپنائے۔
تحریر: محمد شاہد محمود