تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا کہ قومی اسمبلی ایک قرارداد کے ذریعے وزیرِاعظم صاحب کوپابند کرے کہ وہ سال میں کم ازکم ایک ماہ ضرور پاکستان میں گزاریں تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کہ ہمارابھی ایک وزیرِاعظم ہوتاہے ۔پتہ نہیں پیپلز پارٹی کوہماری اِس ”ارسطوانہ ” تجویزکی بھِنک کہاںسے پڑگئی کہ اُس نے قومی اسمبلی کی کارروائی اورطریقِ کارمیں تبدیلی کے لیے ایک ترمیم ہی ”پھڑکا”دی۔ اِس ترمیم کی رُو سے پارلیمنٹ کے ہراجلاس کے پہلے بُدھ کو وزیرِاعظم صاحب کو سوالات کے جواب دینے کاپابند کیاگیااور سوالات کے لیے قائدِحزبِ اختلاف کومقدم گردانا گیا ۔یہ ترمیم پیپلزپارٹی کی محترمہ فریال تالپور اورڈاکٹر نفیسہ شاہ سمیت پانچ خواتین اورتین مردوںنے دائرکی ۔فریال تالپورصاحبہ کواِس بات کاغصّہ کہ نیب نے ”بھولے بھالے” منورتالپور پرہاتھ کیوںڈالا اورنفیسہ شاہ ہمارے پچھلی صدی کے سندھ کے وزیرِاعلیٰ سیّدقائم علی شاہ کی ”سپُتری” جنہیں اِس بات کاغصّہ کہ میڈیا”ایویںخواہ مخوا” قائم علی شاہ کی کلاس لیتارہتا ہے۔ اِس ترمیم پر”کھُلی ڈُلی” بحث ہوئی۔
پیپلزپارٹی کویقین تھاکہ وہ یہ ترمیم منظورکروانے میںکامیاب ہوجائے گی کیونکہ اُسے نظرآ رہاتھاکہ پارلیمنٹ میںموجود اپوزیشن اراکین کی تعدادحکومتی اراکین سے زیادہ ہے۔ اُدھرسپیکر ایازصادق بھی پریشان کہ اگرووٹنگ کروادی گئی تویہ ترمیم کہیں منظورہی نہ ہوجائے لیکن اپوزیشن کے شورپر اُنہیںبادلِ نخواستہ ووٹنگ کروانی ہی پڑی ۔ جب نتیجہ آیاتو حکومتی ووٹ 70 اوراپوزیشن کے صرف 53 ، جس پراپوزیشن نے شورمچادیا کہ ووٹنگ دوبارہ کروائی جائے اگرہمارے کپتان صاحب پارلیمنٹ میںموجودہوتے تواُنہوں نے تودھاندلی کاشور مچاتے ہوئے یہ کہہ کرپارلیمنٹ سے واک آوٹ ہی کرجانا تھاکہ ”ایسے دستورکو ،صبحِ بے نورکو ، میںنہیں مانتا”، لیکن پیپلزپارٹی نے محض دوبارہ ووٹنگ پرہی اکتفاکیا ۔دوبارہ ووٹنگ سے پہلے قیامت کاسماں، حکومتی اوراپوزیشن اراکین اپنے اپنے ساتھیوںکو ڈھونڈنے نکل پڑے۔ کوئی کیفے میںچائے پیتاپکڑا گیاتوکوئی اپنے کمرے میں خوابِ استراحت کے مزے لیتاہوا۔
جب دوبارہ ووٹنگ ہوئی تواپوزیشن کے 60 اورحکومتی ووٹ 73 نکلے اوریوںوزیرِاعظم صاحب بال بال بچ گئے ۔ اگریہ ترمیم منظورہو جاتی تواسمبلی کے ہراجلاس کے پہلے بُدھ کووہی منظرہوتا جو ہم بچپن میںاپنے سکول میںدیکھاکرتے تھے ۔ہمیںاچھی طرح یادہے کہ جب ”اُستانی جی ” کسی ”اَوکھے ” سوال کاجواب دینے کے لیے ہمیںکھڑاکرتیںتوہمارے ہاتھ پاؤںکانپنا شروع ہو جاتے اورشدید سردی میںبھی ”تریلیاں” آنے لگتیں۔ترمیم منظورہو جانے کی صورت میںپارلیمنٹ بھی سکول کاسا منظرپیش کرتی جہاںڈنڈا ”اُستادِمحترم”سیّدخورشید شاہ کے ہاتھ میںہوتا جو یقیناََ ہمارے وزیرِاعظم صاحب کو پھنسانے کے لیے ”پُٹھے پُٹھے” سوال کرتے اورجواب دینے کے لیے ہمارے معصوم، بھولے بھالے اورمرنجاں مرنج وزیرِاعظم۔ اِس صورت میںوزیرِاعظم صاحب کوجیب سے ”پرچیاں” نکالنے کی اجازت بھی نہ ہوتی اوراُنہیں سارے سوالوںکے ” مُنہ زبانی” جوابات ہی دینے پڑتے جویقینا ایک مشکل کام ہوتااِس لیے شکرہے کہ یہ ترمیم منظور نہیںہوئی۔
یہ ساری ”شرارت” محض اِس لیے ہوئی کہ پیپلزپارٹی اورنوازلیگ کا ” ہنی مون پیرید” ختم اور ”مُک مکا” کی سیاست دَم توڑچکی ۔پیپلئے کہتے ہیںکہ وزیرِاعظم صاحب نے ”کھَبی” دکھاکے ”سَجی” ماری ہے ۔پہلے ایم کیوایم کوپیپلزپارٹی سے دورکرنے اوراُس کا ”مَکوٹھپنے” کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت وزیرِاعلیٰ سندھ سیّدقائم علی شاہ کو”کپتان” بنایااورجب ایم کیوایم ”بے کَس وبے بَس” ہوگئی توپلٹ کے پیپلزپارٹی پرایسا دھاوا بولاکہ اُس کے سارے ”نگینے” چُن لیے ۔اُدھر نوازلیگ کے” مزاحیہ فنکار” مشاہداللہ خاںبار بار پیپلزپارٹی کوچھیڑتے رہتے ہیں۔شاید اُن کا مطمعٔ نظریہ ہوکہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہمکلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
اب مشاہداللہ خاںنے سینٹ میںیہ کہتے ہوئے ایک اور ”کھڑاک” کردیا کہ ”صوبہ سندھ حالتِ جنگ میں ،سندھ حکومت حالتِ بھنگ میںاور کراچی حالتِ گَندمیں ہے”۔ وہ کہتے ہیںکہ اب کراچی میںصرف گَندہی گَندہے ۔اگراُن کی ”گَند” سے مراد” وہ” ہے جورینجرز، ایف آئی اے اورنیب مِل کرصاف کرتے جارہے ہیںتوہم بھی اُن کی تائیدکرتے ہیںکہ ملک وقوم کے لیے یہی بہترہے لیکن اگراُن کی مراد”گندگی” ہے توہم اُن سے اتفاق نہیںکرتے کیونکہ ہمارے خیال میںیہ ساری شرارت ایم کیوایم کی ہے جوپہلے کبھی شہربند کروایاکرتی تھی ۔ اب چونکہ اُس میںشہربند کروانے کی سَکت نہیںاِس لیے اب کراچی کے گٹربند کروا رہی ہے ۔یہ دراصل بلدیاتی اختیارات کامعاملہ ہے جس میںپیپلزپارٹی اورایم کیوایم آمنے سامنے ۔زرداری صاحب دبئی جابیٹھے اوررحمٰن ملک خاموش اِس لیے پیپلزپارٹی اورایم کیوایم میں افہام وتفہیم کی کوئی راہ دکھائی نہیںدیتی ۔ویسے بھی نوازلیگ ”اَندرکھاتے” ایم کیوایم سے مل چکی اورایم کیوایم نے یہ اعلان بھی کردیا کہ کراچی کانائب میئر نوازلیگ سے ہوگا۔
حالانکہ نوازلیگ کے پاس تو کَکھ” بھی نہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ رینجرز اختیارات کے معاملے پرایم کیوایم خاموش”ٹپک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویربنی بیٹھی ہے۔ اُدھررینجرزکی ساری توجہ پیپلزپارٹی پر۔ اسی لیے قائم علی شاہ نے کہہ دیاکہ وہ کپتان توہیں لیکن اُنہیںتو کوئی پوچھتاہی نہیں۔ہوسکتا ہے کہ رینجرزنے کپتان صاحب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہولیکن وہ توبقول مشاہداللہ خاںہروقت ”حالتِ بھنگ” میںہوتے ہیں۔ دروغ بَرگردنِ راوی شنید ہے کہ شروع شروع میںرینجرزنے اپنے ”کپتان” کواعتماد میںلینا چاہالیکن ہوایہ کہ شاہ صاحب کے پاس جواطلاع پہنچی وہ من وعن متعلقہ افرادتک پہنچادی گئی اورمتعلقہ افراداپنی پہلی فرصت میںپاکستان سے ”پھُٹا ” مار گئے۔ چونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیںڈَسا جاتااور ہمیںیقین کہ ہماری رینجرز ”ہجومِ مومنین” پرمشتمل اِس لیے وہ اپنے کپتان صاحب کوکچھ بتانے سے گریزاںہی رہتی ہے۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر