تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم
پیارے پاکستان میں دہشت گردی پہ قابو پانے کے لئے عسکری اور حکومتی کوششیں قابل ستائش ہیں افواج و دیگر سیکیورٹی اداروں کی عمدہ حکمت عملی سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے افواج و دیگر سیکیورٹی ادارے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیںاور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم پر قائم ہیں اس کے باوجود ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کہیں نا کہیں کامیاب دکھائی دیتے ہیں ابھی گیارہ جنوری کو ملک دشمن عناصرنے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کو لہو لہو کر دیا کوئٹہ میں سیٹلائٹ ٹاون میں انسداد پولیو سنٹر کے سامنے سڑک کنارے نصب بم دھماکے سے پولیس کے 12اورایف سی کا ایک اہلکارسمیت 14افراد شہید جبکہ24 زخمی ہوگئے۔ 8زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ،زخمیوں میں زیادہ تر سیکیورٹی اہلکارشامل ہیں۔دھماکا کے وقت موقع پر پولیس کی گاڑی موجود تھی اور 15 سے 20 پولیس اہلکار ڈیوٹی پر موجود تھے۔
دھماکے کے نتیجے میںدیگر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ۔پولیس نے اپنی جانوں پر کھیل کر کوئٹہ کو بہت بڑی تباہی سے بچایا ہے اگردھماکہ سینٹر کے اندرہوتا تو یقینا مالی و جانی نقصان زیادہ ہونا تھاواقعے کے فوری بعد پولیس ،ایف سی کی گاڑیاںاور ریسکیو ٹیمیں پہنچ گئیں ۔ امدادی کارروائیاں شروع کردی گئیںاور زخمیوں کوسول اسپتال منتقل کردیا گیا۔ ھماکہ کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹائون میں انسداد پولیو سنٹر کے قریب ہوا۔ دھماکے میں سات پولیس اہلکاروں ایک ایف سی اہلکار سمیت 8 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ 6اہلکاروں نے ہسپتال جا کر دم توڑ دیا۔ دھماکا اس قدر زوردار تھا کہ قریبی دکانوں اور دفاتر کے شیشے ٹوٹ گئے اور جائے حادثہ پر کھڑی ہوئی گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے کے فوری بعد امدادی کارروائیوں کیلئے ادارے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور زخمیوں کوسول ہسپتال منتقل کیا جبکہ ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔
ایدھی ذرائع کے مطابق 24افراد زخمی ہیں۔ سیٹلائٹ ٹان میں شدید فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کردیا ۔ بم ڈسپوزل سکواڈ نے موقع پر پہنچ کر شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دئیے ۔ دھماکے سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔دھماکے کے بعد صوبائی وزیر سرفراز بگٹی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تعداد پولیس اہلکاروں کی ہے۔ سرفراز بگٹی نے دھماکے کے نتیجے میں 14 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دھماکا ممکنہ طور پر خودکش ہوسکتا ہے۔صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دھماکے میں 7 سے 8 کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا، ابتدائی معلومات کے مطابق دھماکا خودکش ہو سکتا ہے تاہم واقعہ کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ حالات کنٹرول میں ہیں ، زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے اور شدید زخمیوں کو علاج کیلیے کراچی منتقل کیا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دھماکے کے وقت انسداد پولیو ٹیم مختلف علاقوں کے لیے روانہ ہورہی تھیں اورسکیورٹی اہلکاروں نے پولیو ٹیموں کے ساتھ مختلف علاقوں میں ڈیوٹی پر جانا تھا اور بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے تھے ۔ ۔واضح رہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں انسدادِ پولیو مہم جاریتھی اور مذکورہ سینٹر سے پولیو ٹیموں کو مختلف علاقوں میں بھیجا جارہا تھا۔دھماکے کے بعد پولیو مہم ملتوی کر دی گئی ہے۔اس سے قبل بھی بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیو ٹیموں پر حملے کیے جاتے رہے ہیں تاہم یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی پولیو سینٹر کے قریب دھماکا کیا گیا ہے۔واقعے کے بعد کوئٹہ میں پولیو مہم ملتوی کردی گئی۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پولیو وائرس پایا جاتا ہے۔ ملک میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث جون 2014 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کے لیے پولیو ویکسین کو لازمی قرار دیا تھا۔وفاقی وزیر داخلہ نے آئی جی بلوچستان سے دھماکے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔صدر مملکت ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیو سینٹر کے باہر ہونے والے دھماکہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں اور ایف سی اہلکار کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا ہے جبکہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے اور زخمیوں کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے
عجیب اتفاق ہے دہشت گردوں نے اسی روز کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے چنا جس روز بلوچستان میں صوبائی کابینہ تشکیل دی جا رہی تھی اس قسم کے حملے دہشت گردوں کی ذہنیت کے عکاس ہیں ملک کی بہادر افواج دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال رہی ہیں دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر تباہ کیا جا رہا ہے شدت پسندی کے نظریہ کو ختم کرناضروری ہے حالیہ دہشت گردی کے واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جب تک دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ کر پھینک نہیں دیا جاتا اس وقت تک ملک میں قیام امن و استحکام کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا،ملک سے قلع قمع کیا جائے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں واقعہ میں ملوث دہشتگردوں اور انکے سہولت کاروںکو گرفتارکرکے قانون کے کٹہرے میں لاکر کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔رب کائنات سے دعا ہے کہ دھماکے میں شہید افراد کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم